Jump to content

دہلی کی آخری شمع/حواشی

From Wikisource


١۔ اِن کا نام مرزا فخر الدین، خطاب مرزا فتح الملک، شاہ بہادر، عرف مرزا فخرو اور تخلص رمز تھا۔ بہادر شاہ ثانی کے منجھلے بیٹے تھے۔ مرزا محمد دارا بخت عرف مرزا شبّو ولی عہدِ سلطنت کے انتقال کے بعد ١٨٤٩ء میں ولی عہد ہوئے مگر غدر سے پہلے ہی ١٠ جولائی ١٨٥٢ء میں چالیس سال کی عمر میں انتقال کیا۔ ان کے انتقال کے بعد مرزا جواں بخت کی ولی عہدی کے جھگڑے پڑے۔

٢۔ قلعۂ دہلی کو “لال حویلی” یا صرف حویلی بھی کہا جاتا ہے۔ حافظ عبد الرحمن خاں احسانؔ کا شعر ہے:

مری تنخواہ لوٹی ان لٹیروں نے حویلی میں بہادر شاہ غازی کی دوہائی ہے دوہائی ہے

١۔ قلعہ دہلی کے دورِ آخر میں شاہانِ دہلی بعض وقت مرد عورت دونوں کو “اماں” سے خطاب کیا کرتے تھے، چنانچہ اس طرز کلام کی جھلک حیدرآباد کے روزمرہ میں بھی کسی قدر نظر آتی ہے۔ مجھے بڑا تعجب ہے کہ ایک مورخ نے اس طریقہ مخاطبت کی بنا پر قلعہ معلّی کی تہذیب و اخلاق پر حملہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ بادشاہ کے اخلاق کی پستی کا اندازہ اِس سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو بھی “اماں” کہتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ صاحب انگریزی نہیں جانتے تھے ورنہ ان کو یہ پڑھ کر بڑا تعجب ہوتا کہ جس قوم کو وہ تہذیب کا پتلا اور اخلاق کا نمونہ ظاہر کرتے ہیں، اُن کے یہاں بھی خاوند اپنی بیوی کو “اماں” ہی کہتا ہے اور بیوی خاوند کو کبھی “ابا” اور کبھی “دادا” پکارتی ہے۔ میرے خیال میں یہ “ارے میاں” کا اختصار ہے، چنانچہ اب بھی بے تکلف بول چال میں میاں کو “اماں” ہی کہہ جاتے ہیں۔ (اڈیٹر رسالہ اردو)

١۔ اُن دنوں دہلی میں لوگوں نے یہ اڑا رکھا تھا کہ مرزا نوشہ (غالبؔ) مرزا عبد اللہ بیگ کے بیٹے نہیں ہیں، بلکہ انھوں نے اُن کو پال لیا ہے اور یہ دراصل کسی کشمیری کی اولاد ہیں۔ حافظ ویرانؔ نے اِسی طرف اشارہ کیا ہے۔ خدا محفوظ رکھے دہلی والوں سے۔ جو باہر سے آیا ہے، اُس کے حسب نسب میں انھوں نے کیڑے ڈالے۔

٢۔ استاد ذوقؔ کو شہر بھر نائی کہتا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ آزادؔ مرحوم نے اُن کے ہاتھ میں استرے کے بجائے تلوار سے کر ان کو سپاہی زادہ بنا دیا ہے۔

١۔ معلوم نہیں کہ یہ کس زبان کا لفظ ہے مگر دہلی میں عام طور پر “شگوفے” کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔

٢۔ قلعہ دہلی کے عجائب خانے میں مرزا غالب کی ایک تصویر ہے، اُس سے یہ لباس لیا گیا ہے۔

١۔ میں نے خود یہ مکان بیس بائیس برس ہوئے دیکھا ہے۔ ٹوٹ کر کھنڈر ہو گیا تھا۔ تین طرف کی عمارت ڈھے گئی تھی۔ سامنے کا حصہ قائم تھا۔ معلوم نہیں کہ اوپر کی منڈیر کیوں اتنی نیچی رکھی گئی تھی۔ اسی منڈیر سے ٹھوکر کھا کر حکیم مومن خاں نیچے گرے، ہاتھ اور بازو ٹوٹ گیا اور اسی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔ خود ہی مرنے کی تاریخ کہی تھی “دست و بازو بشکست”۔

١۔ یہ استاد ذوق اور شہ زادوں کی طرف اشارہ تھا۔

٢۔ اِن کا مفصل حال آگے آئے گا، یہ بھی عجیب رقم تھے۔

١۔ یہ واقعہ ہے۔ اِس کے دیکھنے والے ایک صاحب کا ابھی کوئی بیس برس ہوئے انتقال ہوا ہے۔ میں نے یہ واقعہ خود اُن کی زبانی سنا ہے۔

١۔ پرانے زمانے میں شرفا گھر پر بھی پورا لباس پہنے رہتے تھے۔ زنانے میں جانے کے خاص خاص وقت تھے، ورنہ سارا وقت مردانے ہی میں گزرتا تھا۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی ملنے جلنے والا پاس بیٹھا رہتا۔ عالم ہوئے تو درس کا حلقہ ہوتا۔ شاعر ہوئے تو شعر کا چرچا رہتا۔ غرض کوئی وقت بیکار نہ گزرتا، خاص خاص دوستوں سے مذاق کی گفتگو ہوتی، ورنہ عام طور پر اپنے کو بہت لیے دیے رہتے۔ جہاں جاؤ یہی معلوم ہوتا کہ دربار لگا ہوا ہے۔ ہر شخص دو زانو مودّب بیٹھا ہے۔ بے ضرورت نہ بات کی جاتی ہے نہ جواب دیا جاتا ہے۔ کوئی ہنسی کی بات ہوئی تو ذرا مسکرادیے، کھلکھلا کر ہنسنا معیوب اور بڑھ بڑھ کر بولنا یا اونچی آواز میں بات کرنا خلافِ ادب سمجھا جاتا تھا۔

١۔ سبز رنگ دہلی کا شاہی رنگ تھا۔

١۔ بزرگوں کی زبانی دیوانِ عام کے مشاعروں کا جو حال میں نے سنا ہے، بجنسہ اسی پر اس مشاعرے کا نقشہ قائم کیا ہے۔

١۔ روز روز کی خانہ جنگیوں نے ہر شہزادے کے دل میں یہ خیال پیدا کر دیا تھا کہ کل میں ہی بادشاہ ہو جاؤں، اس لیے قلعے کے سب لوگ خواہ شہزادے ہوں یا سلاطین زادے، ہمیشہ تخت کی، تاج کی اور اسی طرح کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔


١۔ اس واقعے کا ذکر ڈاکٹر نذیر احمد مرحوم نے ابن الوقت میں کیا ہے، مگر نام نہیں لکھا ہے۔ یہ واقعہ انہی کی زبانی معلوم ہوا تھا۔ سن کر تعجب ہوا تھا۔ اب ایسے بہت سے لوگوں کو خود اپنی آنکھ سے دیکھ لیا۔

١۔ اس مضمون میں جا بہ جا دہلی والوں کے لباس کا ذکر آیا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ذرا وضاحت سے اس لباس کو بتا دوں تاکہ پڑھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے اُس محفل کا نقشہ اور اچھی طرح پھر جائے۔ مرزا نوشہ کا ذکر تو جانے ہی دو، وہ تو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بناتے ہیں۔ ان کی ٹوپی دنیا بھر سے جدا تھی، نہ ترکی نہ تاتاری۔ کھال کو (خواہ سمور ہو یا برّہ) اس طرح سی لیا جاتا تھا کہ نیچے کا گھیر اوپر کے چندوے سے ذرا بڑا رہے۔ اس کے بعد چار کنگرے قائم کر کے کھال کو ٹوپی کی آدھی لمبان تک اس طرح کاٹ لیا کہ ٹوپی گڑگج کی شکل بن گئی۔ بیچ میں چندوے کی جگہ مخمل یا گہرے رنگ کی بانات کنگروں کے کناروں سے ملا کر سی لی، اندر استر دے دیا، چلو مرزا نوشہ کی ٹوپی ہوگئی۔ شہرہ میں کلاہِ تتری کا بہت استعمال ہے، جس کو عام اصطلاح میں چوگوشیہ ٹوپی کہتے ہیں۔ یہ بھی کئی وضع کی ہوتی ہیں اور کئی طرح پہنی جاتی ہیں۔ جو ٹوپی شرفا استعمال کرتے ہیں، اس کا دمہ (گوٹ) ذرا نیچا ہوتا ہے۔ دمے کے اوپر چار پاکھے، پاکھے کی وضع بالکل شاہ جہانی محراب کی سی ہوتی ہے۔ چاروں کو اس طرح ملا کر سیتے ہیں کہ چاروں کونے کمرک (کمرخ) کے نمونے کے ہوجائیں۔ بعض لوگوں نے اس میں ذرا جدت بھی کی ہے وہ یہ کہ دمے کو اونچا کر کے پاکھوں کی لمبان کو چوڑان سے کسی قدر بڑھا دیا ہے اور ان کے سل جانے کے بعد جو پہل پیدا ہوئے ہیں ان کو پھر کاٹ کر کلیاں ڈال دی ہیں۔ اس طرح بجائے چار پہل کے آٹھ پہل ہوگئے ہیں۔ خوب صورتی کے لیے دمے کے کناروں پر پتلی لیس اور گوشوں کے کناروں پر باریک قیطون لگاتے ہیں۔ بادشاہ سلامت کی ٹوپی ہوتی تو اسی نمونے کی ہے، مگر سلمی ستارے کے کام سے لپی ہوئی اور جا بجا موتی اور نگینے ٹکے ہوئے۔ اس قسم کی ٹوپی کئی طرح پہنی جاتی تھی۔ قلعے والے تو پاکھوں کو کھڑا رکھتے ہیں۔ باقی لوگ ان کو کسی قدر دبا لیتے ہیں۔ جو ٹوپی آٹھ پہل کی ہوتی ہے، اس کے پاکھوں کو تو اتنا دبا دیتے ہیں کہ گوشے، دمے کے باہر پھیل کر کنول کی شکل بن جاتے ہیں۔ اس قسم کی ٹوپی ہمیشہ آڑی پہنی جاتی ہے اور وہ بھی اس طرح کہ اُس کا ایک کونا بائیں بھوں کو دبائے۔ اِس ٹوپی کے علاوہ ارخ چین (عرق چین) کی ٹوپی کا بھی رواج ہے۔ اس کا بنانا کچھ مشکل کام نہیں۔ ایک مستطیل کپڑے کے کناروں کو سر کی ناپ کے برابر سی لیا۔ نیچے پتلی سی گوٹ دے دی اور اوپر کے حصے میں چنّٹ دے کر چھوٹا سا گول گتا لگا دیا۔ دہلی کی دو پلڑی ٹوپی اور لکھنؤ کی ٹوپی میں صرف یہ فرق ہے کہ یہاں یہ ٹوپی اتنی بڑی بناتے ہیں کہ سر پر منڈھ جائے۔ بر خلاف اس کے لکھنؤ کی ٹوپی صرف بالوں پر دھری رہتی ہے۔ ان ٹوپیوں کے علاوہ بعض بعض لوگ پچ گوشیہ ٹوپی بھی پہنتے ہیں۔ اس ٹوپی کے پانچ گوشے ہوتے ہیں، لیکن اس کی کاٹ چوگوشیہ ٹوپی سے ذرا مختلف ہے۔ گوشوں کے اوپر کے حصے بس ایسے ہوتے ہیں جیسے فصیل کے کنگرے۔ نیچے دمے کی بجائے پتلی سی گوٹ ہوتی ہے۔ یہ ٹوپی قالب چڑھا کر پہنی جاتی ہے۔ قالب چڑھ کر ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے ہمایوں کے مقبرے کا گنبد۔ عام لوگوں میں بڑے گول چندوے کی ٹوپی کا بھی بہت استعمال تھا۔ بعض تو بالکل سادی ہوتی ہیں (بقیہ صفحۂ گزشتہ سے آگے) اور بعض سوزنی کے کام یا فیتے کے کام کی ہوتی ہیں۔ اس ٹوپی کو بھی قالب چڑھا کر پہنتے ہیں۔ لباس میں انگرکھا بہت پسند کیا جاتا ہے۔ انگرکھے کی چولی اتنی نیچی ہوتی ہے کہ ناف تک آتی ہے۔ چوں کہ ہر شخص کو کسرت کا شوق ہے، اس لیے جسم کی خوب صورتی دکھانے کے لیے آستینیں بہت چست رکھتے ہیں اور بعض شوقین آستینوں کو آگے سے کاٹ کر الٹ لیتے ہیں۔ انگرکھے کے نیچے کرتا بہت کم لوگ پہنتے ہیں۔ قلعے والوں کے انگرکھے کے اوپر جامے دار یا مخمل کی خفتان ہوتی ہے۔ بہت تکلف کیا تو اس کے حاشیوں پر سمور لگا لیا، نہیں تو عموماً پتلی لیس لگاتے ہیں۔ بٹنوں کی بجائے صرف ایک تکمہ اور گھنڈی ہوتی ہے جس کو “عاشق معشوق” یا “چشمے” کہتے ہیں۔ اس کی آستینیں ہمیشہ آدھی ہوتی ہیں۔ قلعے میں تو اس کو خفتان کہا جاتا ہے مگر شہر والے اس سینہ کھلے نیمہ آستین کو “شیروانی” کہتے ہیں۔ انگرکھے کے اوپر چوکور شالی رومال سموسا کرکے پیٹھ پر ڈال لیتے ہیں۔ اس رومال کو عام اصطلاح میں “ارخ چین” کہتے ہیں۔ کمر میں بھی بتی کر کے رومال لپیٹنے کا رواج ہے مگر بہت کم۔ پیجامہ ہمیشہ قیمتی کپڑے کا ہوتا ہے، اکثر گل بدن، غلطے، مشروع، موٹرے، اطلس یا گورنٹ کا ہوتا ہے۔ پرانی وضع کے جو لوگ ہیں، وہ اب بھی ایک بر ہی کا پیجامہ پہنتے ہیں مگر تنگ مہریوں کے پیجامے بھی چل نکلے ہیں۔ سلیم شاہی جوتی کا استعمال شروع ہوگیا ہے پھر بھی دہلی کے شرفا گھیتلی جوتی زیادہ پسند کرتے ہیں۔ شاید ہی شہر بھر میں کوئی ہوگا جس کے ہاتھ میں بانس کی لکڑی اور گز بھر کا لٹھے کا چوکور رومال نہ ہو۔ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر لمبی پور کا ٹھوس بھاری بانس لیتے، تیل پلاتے، مہندی مل کر باورچی خانے میں لٹکاتے، یہاں تک کہ اس کی رنگت بدلتے بدلتے سیاہ ہو جاتی اور وزن تو ایسا ہو جاتا گویا سیسہ پلا دیا ہے۔ جو نکلتا ہے، اینٹھتا ہوا نکلتا ہے۔ جس کو دیکھو چوڑا سینہ، پتلی کمر، بنے ہوئے ڈنڈ۔ شرفا میں ڈھونڈنے سے شاید ایک بھی نہ نکلے گا جس کو کسرت کا شوق نہ ہو اور وہ بانک، بنوٹ اور لکڑی نہ جانتا ہو۔ بچپن ہی سے ان فنون کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مقابلے ہوتے ہیں، واہ واہ سے بچوں اور نوجوانوں کا دل بڑھاتے ہیں اور فنونِ سپہ گری کو شرافت کا تمغا سمجھتے ہیں۔

١۔ مرزا فخرو کے ساتھ نواب مرزا خاں داغ کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ نواب شمس الدین خاں کے پھانسی پانے کے بعد ان کی بیوی یعنی داغ کی والدہ کا نکاح مرزا فخرو سے ہوگیا تھا اور اسی نسبت سے داغ قلعے میں رہتے تھے۔ (نواب فتح الملک کا عرف “مرزا فخرو” تھا۔)

٢۔ نواب فتح الملک بہادر بڑے کٹر مسلمان تھے۔ کوئی کام بغیر فاتحۂ خیر کے شروع نہ کرتے تھے، اسی لیے سب قلعے والے ان کو “ملا” یا “ملیٹا” کہا کرتے تھے۔

١۔ اس غرور ہی نے آخر ان کو نیچا دکھایا۔ ان کا روز روز اکھاڑے میں آ کر خم ٹھوکنا لوگوں کو ناگوار گزرا۔ شیخو والوں کے استاد حاجی علی جان نے ایک پٹھا تیار کیا۔ بدن میں تو کچھ ایسا زیادہ نہ تھا مگر داؤں پیچ میں طاق تھا اور پھرتی اس بلا کی تھی کہ کیا کہوں۔ ایک دن جو میاں یل نے حسبِ معمول شیخو والوں کے یہاں آ کر خم ٹھونکے تو لونڈا کپڑے اتار، پیترا بدل سامنے آگیا اور خم ٹھونک کر ہاتھ ملانا چاہا۔ میاں یل کو ہنسی آگئی کہ بھلا یہ پودنا میرا کیا مقابلہ کرے گا۔ ہاتھ ملانے میں تامل کیا۔ استاد علی جان نے کہا: کیوں بھئی ہاتھ کیوں نہیں ملاتے، یا تو ہاتھ ملاؤ یا پھر کبھی اس اکھاڑے میں آ کر خم نہ ٹھونکنا۔ کہنے لگے: استاد! جوڑ تو دیکھ لو، خواہ مخواہ اس لونڈے کو پسوانے سے حاصل؟ استاد نے کہا: میاں جو جیسی کرے گا ویسی بھرے گا۔ دنگل میں تم اسے کچل ڈالنا۔ یہی ہوگا نا کہ ہڈی پسلی تڑوا کر آئندہ کو کان ہو جائیں گے۔ بہرحال دونوں کے ہاتھ مل گئے، تاریخ مقرر ہوگئی۔ اس مشاعرے کے دو چار دن بعد شاہی دنگل میں کشتی قرار پائی۔ عید گاہ کے پاس ہی یہ دنگل ہے۔ دس پندرہ ہزار آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے، مگر اُس روز وہاں تل رکھنے کو جگہ نہ تھی۔ جدھر نظر جاتی سر ہی سر دکھائی دیتے۔ میاں یل کی بے ہودگیوں کی وجہ سے ساری دہلی اس لونڈے کی طرف تھی۔ پہلے چھوٹی موٹی کشتیاں ہوتی رہیں۔ ٹھیک چار بجے یہ دونوں جانگیے پہن، چادریں پھینک دنگل میں اترے۔ اترتے ہی دونوں نے “یا علی” کا نعرہ مارا۔ دو چار ڈھیکلیاں کھائیں۔ کچھ پڑھ کر مٹی سینے پر ڈالی اور خم ٹھونک کر آمنے سامنے ہوگئے۔ دونوں کے جسموں میں زمین آسمان کا فرق تھا، ہاتھی اور (بقیہ گزشتہ صفحے کا) چیونٹی کا مقابلہ تھا۔ تمام دنگل میں سناٹا تھا۔ سوئی بھی گرے تو آواز سن لو۔ وہاں آواز تھی تو “یا علی” کی یا خم ٹھونکنے کی۔ میاں یل نے لونڈے کا ہاتھ پکڑ کر جھٹکا دیا، وہ آگے کو جھکا۔ یہ کمر پر آگئے، وہ جھٹ غوطہ مار ہاتھوں کو چیر کر نکل گیا۔ انھوں نے اس کا سیدھا ہاتھ پکڑ کر دھوبی پاٹ پر کسنا چاہا۔ وہ توڑ کر کے الگ جا کھڑا ہوا۔ یہ گاؤ زوری کر کے اس کو دبا تو لیتے، لیکن وہ اپنی پھرتی کی وجہ سے ذرا سی دیر میں صاف نکل جاتا۔ آخر ایک دفعہ یہ اس کو دبا ہی بیٹھے۔ وہ چپکا پڑا رہا۔ انھوں نے ہفتے کس لیے۔ تھوڑی دیر تک اس کو خوب رگڑا۔ وہ سہے چلا گیا انھوں نے پہلو میں اُکس کر اس کا سینہ کھولنا چاہا۔ وہ بھی موقع تاک رہا تھا۔ یہ کھینچنے میں ذرا غافل ہوئے، اس نے ٹانگ پر باندھ کر جو اڑایا تو میاں یل چاروں شانے چت جا پڑے۔ لونڈا اچک کر سینے پر سوار ہوگیا۔ “وہ مارا، وہ مارا” کی آوازوں سے دنگل ہل گیا۔ لوگوں نے دوڑ کر لونڈے کو گود میں اٹھا لیا۔ کسی نے پھر کر یہ بھی نہ دیکھا کہ میاں یل کہاں پڑے ہیں۔ یہ بھی چپکے سے اٹھ، چادر اوڑھ، منہ لپیٹ، ایسے غائب ہوئے کہ پھر کسی نے ان کی صورت نہ دیکھی۔ دنگل سے کیا گئے۔ ہمیشہ کے لیے دہلی سے گئے۔ تھے بڑے غیرت مند، وہ دن اور آج کا دن، پھر ان کی صورت نظر نہ آئی، خدا جانے کہاں مر کھپ گئے۔

١۔ آیندہ یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں کہ سیدھی طرف سے شمع بڑھی یا الٹی جانب سے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ دائیں طرف کا ایک شاعر پڑھتا تھا اور پھر بائیں طرف کا۔

١۔ غدر کے بعد میرؔ صاحب کا انتقال ہوا ہے۔ میاں کالے صاحب کے فرزند میاں نظام الدین صاحب کے مکان پر جو مشاعرہ ہوتا تھا، اس میں بھی یہ شریک ہوتے تھے۔ اُس مشاعرے کے دیکھنے والے اب بھی دہلی میں بہت موجود ہیں۔ انہی لوگوں کی زبانی میر صاحب کے حالات معلوم ہوئے اور درج کیے گئے۔ تذکروں میں تو ان بچاروں کا کیوں ذکر آنے لگا۔

١۔ علمِ معانی اور بلاغت پر علامہ تفتازانی کی ایک مشہور کتاب کا نام مطول ہے۔

٢۔ اربعین فی اصول الدین حضرت امام غزالیؒ کی ایک مشہور تصنیف ہے، جس کو میر صاحب نے رباعیوں کی بحروں سے متعلق کر دیا۔

١۔ قلعے والوں کو خواہ شہزادے ہوں یا سلاطین زادے “صاحب عالم” کہا جاتا ہے۔