دل میں ترے اے نگار کیا ہے
Appearance
دل میں ترے اے نگار کیا ہے
ہوتا نہیں ہمکنار کیا ہے
آیا جو دم وہ ہے غنیمت
اس زیست کا اعتبار کیا ہے
ہیں سیب سے بھی وہ چھاتیاں سخت
آگے ان کے انار کیا ہے
دنیا کے یہ سب ڈھکوسلے ہیں
تربت کیسی مزار کیا ہے
طاؤس سے چھیڑ چھاڑ کیسی
ہاں اے دل داغدار کیا ہے
جو جو وہ رنج دیں اٹھاؤ
جب دل ہی دیا تو عار کیا ہے
میں چاہتا ہوں اسے نہ چاہوں
دل پر مرا اختیار کیا ہے
مژگاں کا ہے مرے دل میں کھٹکا
اے خوشبوئے نوک خار کیا ہے
مٹی مری خاک میں ملائی
مجھ سے ان کو غبار کیا ہے
دوڑوں تو مجھے صبا نہ پائے
پیدل کیسا سوار کیا ہے
بوسہ کی طلب کہ وصل کا ذکر
فرمائیے ناگوار کیا ہے
ہے کیا آغاؔ تڑپ رہا ہے
کیوں کہتے ہو بار بار کیا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |