دل جدا مال جدا جان جدا لیتے ہیں
Appearance
دل جدا مال جدا جان جدا لیتے ہیں
اپنے سب کام بگڑ کر وہ بنا لیتے ہیں
ہو ہی رہتا ہے کسی بت کا نظارہ تا شام
صبح کو اٹھ کے جو ہم نام خدا لیتے ہیں
مجلس وعظ میں جب بیٹھتے ہیں ہم میکش
دختر رز کو بھی پہلو میں بٹھا لیتے ہیں
ایسے بوسے کے عوض مانگتے ہیں دل کیا خوب
جی میں سوچیں تو وہ کیا دیتے ہیں کیا لیتے ہیں
اپنی محفل سے اٹھائے ہیں عبث ہم کو حضور
چپکے بیٹھے ہیں الگ آپ کا کیا لیتے ہیں
بت بھی کیا چیز ہیں اللہ سلامت رکھے
گالیاں دے کے غریبوں کی دعا لیتے ہیں
شاخ مرجاں میں جواہر نظر آتے ہیں امیرؔ
کبھی انگلی جو وہ دانتوں میں دبا لیتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |