دال کی فریاد
ایک لڑکی بگھارتی ہے دال
دال کرتی ہے عرض یوں احوال
ایک دن تھا ہری بھری تھی میں
ساری آفات سے بری تھی میں
تھا ہرا کھیت میرا گہوارہ
وہ وطن تھا مجھے بہت پیارا
پانی پی پی کے تھی میں لہراتی
دھوپ لیتی کبھی ہوا کھاتی
مینہ برستا تھا جھونکے آتے تھے
گودیوں میں مجھے کھلاتے تھے
یہی سورج زمیں تھے ماں باوا
مجھ سے کرتے تھے نیک برتاوا
جب کیا مجھ کو پال پوس بڑا
آہ ظالم کسان آن پڑا
گئی تقدیر یک بہ یک جو پلٹ
کھیت کا کھیت کر دیا تلپٹ
خوب لوٹا دھڑی دھڑی کر کے
مجھ کو گونوں میں لے گئے بھر کے
ہو گئی دم کے دم میں بربادی
چھن گئی ہائے میری آزادی!
کیا بتاؤں کہاں کہاں کھینچا
دال منڈی میں مجھ کو جا بیچا
ایک ظالم سے واں پڑا پالا
جس نے چکی میں مجھ کو دل ڈالا
ہوا تقدیر کا لکھا پورا
دونوں پاٹوں نے کر دیا چورا
نہ سنی میری آہ اور زاری
خوب بنیے نے کی خریداری
چھانا چھلنی میں چھاج میں پھٹکا
قید خانہ مرا بنا مٹکا
پھر مقدر مجھے یہاں لایا
تم نے تو اور بھی غضب ڈھایا
کھال کھینچی الگ کیے چھلکے
زخم کیوں کر ہرے نہ ہوں دل کے
ڈالیں مرچیں نمک لگایا خوب
رکھ کے چولھے پہ جی جلایا خوب
اس پہ کف گیر کے بھی ٹھوکے ہیں
اور ناخن کے بھی کچوکے ہیں
میرے گلنے کی لے رہی ہو خبر
دانت ہے آپ کا مرے اوپر
گرم گھی کر کے مجھ کو داغ دیا
ہائے تم نے بھی کچھ نہ رحم کیا
ہاتھ دھو کر پڑی ہو پیچھے تم
جان پر آ بنی حواس ہیں گم
اچھی بی بی تمہیں کرو انصاف
ظلم ہے یا نہیں قصور معاف
کہا لڑکی نے میری پیاری دال
مجھ کو معلوم ہے ترا سب حال
تو اگر کھیت سے نہیں آتی
خاک میں مل کے خاک ہو جاتی
یا کوئی گائے بھینس چر لیتی
پیٹ میں اپنے تجھ کو بھر لیتی
میں تو رتبہ ترا بڑھاتی ہوں
اب چپاتی سے تجھ کو کھاتی ہوں
نہ ستانا نہ جی جلانا تھا
یوں تجھے آدمی بنانا تھا
اگلی بیتی کا تو نہ کر کچھ غم
مہربانی تھی سب، نہ تھا یہ ستم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |