خوب ہاتھوں ہاتھ بدلہ مل گیا بیداد کا
خوب ہاتھوں ہاتھ بدلہ مل گیا بیداد کا
آشیاں میرا جلا گھر جل گیا صیاد کا
یہ خلاصہ مختصر ہے عشق کی روداد کا
شوق ہے ان کو ستانے کا ہمیں فریاد کا
ہر گرفتار قفس قیدی ہے بے میعاد کا
چھوڑ بھی دیتا ہے جی چاہے اگر صیاد کا
واہ مجھ ایسے مقید کو لقب آنراء کا
مصلحت صیاد کی ہے یا کرم صیاد کا
اب کیا کرتا ہے ماتم بلبل ناشاد کا
دل لرزتا ہے تقیہ دیکھ کر صیاد کا
حشر اس دن دیکھنا ہر بانیٔ بیداد کا
جب زمیں تانبے کی ہوگی آسماں فولاد کا
کیا مری فریاد کا ان پر اثر ہوتا نہیں
جو انہیں معلوم ہو جاتا سبب فریاد کا
کہتے ہیں بے قاعدہ فریاد ہم سنتے نہیں
پھر بتاتے بھی نہیں وہ قاعدہ فریاد کا
ایک خودبیں کو ہوا جس وقت خود بینی کا شوق
بن گیا منڈان سارے عالم ایجاد کا
کچھ مری فریاد بھی ان پر اثر کرتی نہیں
اور کچھ وہ بھی اثر لیتے نہیں فریاد کا
عاشقی سر پھوڑ لینے کے سوا کچھ بھی نہیں
ہم تو یہ سمجھے ہیں سن کر ماجرا فرہاد کا
دام کا کیا ذکر ہے میں بندۂ بے دام ہوں
شامت آئی پھنس گیا منہ دیکھ کر صیاد کا
انتظام آب و دانہ ہے نہ تنظیم قفس
مجھ سے پوچھو بولتا شہکار ہوں صیاد کا
نالہ و فریاد بہر عیش ہو جب اے صفیؔ
پھر کہاں تاثیر نالے کی اثر فریاد کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |