خالی عاشق سے کبھی کوچۂ جاناں نہ رہا
Appearance
خالی عاشق سے کبھی کوچۂ جاناں نہ رہا
کون سی شب وہ تھی جس میں کوئی گریاں نہ رہا
دیکھیے ناخن وحشت کے سبب عاشق کا
تار داماں نہ رہا تار گریباں نہ رہا
شیخ کیا وعظ سناتا ہے دکھانے کے لیے
دل میں تصویر صنم ہے ترا ایماں نہ رہا
ہو گیا ساتھ دل زار کے وہ بھی رخصت
مایۂ زیست جو اپنا تھا وہ ارماں نہ رہا
ہم صفیرو نہ کہو نغمہ زنی کو مجھ سے
اب چلی باد خزاں اور گل خنداں نہ رہا
رخ دکھاتے ہی کیا محو تماشا تو نے
کب ترا شیفتہ آئینہ سا حیراں نہ رہا
اشک دیدہ تو ہوئے خشک جمیلہؔ کہہ دو
خضر تم آئے تو کیا چشمۂ حیواں نہ رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |