حامد کہاں کہ دوڑ کے جاؤں خبر کو میں
حامد کہاں کہ دوڑ کے جاؤں خبر کو میں
کس آرزو پہ قطع کروں اس سفر کو میں
مانا بری خبر ہے پہ تیری خبر تو ہے
صبر و قرار نذر کروں نامہ بر کو میں
یہ سنگ و خشت آہ دلاتے ہیں تیری یاد
روتا ہوں دیکھ دیکھ کے دیوار و در کو میں
ہے تیری شکل یا تری آواز کا خیال
کرتا ہوں التفات یکایک جدھر کو میں
افسوس ہائے ہائے کی آتی نہیں صدا
پوچھے تو کیا بتاؤں ترے چارہ گر کو میں
کیا ہو گیا اسے کہ تجھے دیکھتی نہیں
جی چاہتا ہے آگ لگا دوں نظر کو میں
اچھا جو تو نے گوشۂ مرقد کیا پسند
اب اپنے حق میں گور بناؤں گا گھر کو میں
تیرے سر عزیز کی بالش ہو خاک سے
بالین غم سے اب نہ اٹھاؤں گا سر کو میں
دیکھی نہ تھی بہار ابھی تیرے شباب کی
بھولا نہ تھا ابھی ترے عہد صغر کو میں
تقدیر ہی نے ہائے نہ کی کچھ مساعدت
کیا روؤں اب دعا و دوا کے اثر کو میں
حکم خدا یہی تھا کہ بیٹھا کیا کروں
ماتم میں تیرے اشک فشاں چشم تر کو میں
جز درد و داغ تو نے نہ چھوڑا نشان حیف
رکھوں گا میہمان انہیں عمر بھر کو میں
کر نے دو آہ و نالہ کہ آخر رہوں گا بیٹھ
تسلیم کر کے حکم قضا و قدر کو میں
کیا فکر آب و نان کہ غم کہہ رہا ہے اب
موجود ہوں ضیافت دل اور جگر کو میں
تجھ کو جوار رحمت حق میں جگہ ملے
مانگا کروں گا اب یہ دعا ہر سحر کو میں
حبس دوام تو نہیں دنیا کہ مر رہوں
کاہے کو گھر خیال کروں رہ گزر کو میں
خود ہم سے بھی زیادہ ہو جو ہم پے مہرباں
وہ جام زہر دے تو نہ چکھوں شکر کو میں
وہ جانے اور اس کی رضا جو پسند ہو
سب کام سونپتا ہوں اسی داد گر کو میں
ہوتا نہ دل میں درد تو کرتا نہ ہائے ہائے
دیتا نہ طول یوں سخن مختصر کو میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |