Jump to content

حالت تو دیکھ لی مری چشم پر آب کی

From Wikisource
حالت تو دیکھ لی مری چشم پر آب کی
by جمیلہ خدا بخش
317400حالت تو دیکھ لی مری چشم پر آب کیجمیلہ خدا بخش

حالت تو دیکھ لی مری چشم پر آب کی
ساقی نہیں ہوس مجھے جام شراب کی

دل کو شرار شعلۂ غم نے جلا دیا
پہلو سے آ رہی ہے جو خوشبو کباب کی

کس کی شمیم نے اسے ایسا بسا دیا
آتی ہے اپنی خاک سے خوشبو گلاب کی

افسانۂ گذشتہ یہ کہتا ہے مجھ سے دل
کیا ذکر ان کا بھولیے باتیں ہیں خواب کی

اس بارگاہ احمد مرسل کے سامنے
وقعت نہیں ہے کچھ بھی فلک سے حباب کی

از فرش تا بہ عرش منور اسی سے ہے
ایسی چمک ہے روضۂ عالی جناب کی

کیوں کر نہ ہوں میں نغمہ سرا ان کی نعت میں
بلبل ہوں بوستان رسالت مآب کی

اس دہر بے بقا سے لگاؤں میں دل کو کیا
ہستی ہے ایک وسعت موج سراب کی

عزت نہ تیرے عرش پہ کیوں کر ملک کریں
تو ہے جمیلہؔ خاک قدم بو تراب کی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.