جگر کو دیکھ کے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
Appearance
جگر کو دیکھ کے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
مرے عزیز مرے چارہ گر کو دیکھتے ہیں
پڑی ہے سامنے جیسے کسی عزیز کی لاش
ہم اس نظر سے دل بے خبر کو دیکھتے ہیں
کٹیں گی موت کے ہاتھوں یہ بیڑیاں اک دن
اس ایک آس کو اور عمر بھر کو دیکھتے ہیں
گزر رہی ہے اسیران بدنصیب کی یوں
کبھی قفس کو کبھی بال و پر کو دیکھتے ہیں
پھر آ کے حسرتیں دم توڑتی ہیں خواب میں کیا
اداس دل جو ہم اتنا سحر کو دیکھتے ہیں
ستم کشوں کو یہ کیا خوب چپ کی داد ملی
جب آنکھ کھلتی ہے تربت سے گھر کو دیکھتے ہیں
اجل کو دیکھ کے سوجھا مآل ہستی کا
سحر کو دیکھ کے شمع سحر کو دیکھتے ہیں
کھلا ہے اب کے ہے ہستی کا ایک نام گناہ
تباہ حالی اہل ہنر کو دیکھتے ہیں
پہنچ کے منزل ہستی پہ ہوش اڑے بیخودؔ
کہ راہزن تھا جو اب راہبر کو دیکھتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |