جس دن سے ہم جنوں کے ہیں داماں لگے ہوئے
Appearance
جس دن سے ہم جنوں کے ہیں داماں لگے ہوئے
دامن کی جا یہاں ہیں گریباں لگے ہوئے
اللہ رے قید خانۂ ہستی کہ دم کے ساتھ
ہر اک قدم پہ لاکھوں ہیں زنداں لگے ہوئے
رویا میں دیکھ مرقد مجنوں کو دہاڑ مار
تھے جائے گل درخت مغیلاں لگے ہوئے
بارے چھٹے اسیر بلا اس گلی میں آج
ہیں تودہ ہائے گنج شہیداں لگے ہوئے
یاران پیش رو ذرا ٹھہرو کہ جیوں جرس
ہم پیچھے پیچھے آتے ہیں نالاں لگے ہوئے
رکھ سوچ کر قدم مری وادی میں گرد باد
پاؤں سے اپنے ہیں یہ بیاباں لگے ہوئے
کوئی تو میرے ناصح دانا سے یہ کہو
دل چھوٹتے ہیں باتوں میں ناداں لگے ہوئے
کیا دن تھے وہ بھی لطفؔ کہ رہتے تھے مثل زلف
کانوں سے اس کے ہم سے پریشاں لگے ہوئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |