تیغ ابرو کا جو قتیل ہوا
Appearance
تیغ ابرو کا جو قتیل ہوا
وہ شہیدوں میں بے عدیل ہوا
چشمۂ اشک چشم پر نم تھا
خلد میں جو کہ سلسبیل ہوا
آبرو دی ہے انکساری نے
خاکساری سے میں جلیل ہوا
خود فرستندہ تھا فرستادہ
وحی لا کر وہ جبرئیل ہوا
ہوں وہ عاصی کہ شعلۂ دوزخ
نار ہی گلشن خلیل ہوا
جز غم یار دشت غربت میں
کون ایسا تھا جو کفیل ہوا
اب خدا ہی سے لو لگاؤں گا
دے کے دل بت کو میں ذلیل ہوا
شب فرقت جو خط لکھا میں نے
زلف جاناں سا وہ طویل ہوا
اے جمیلہؔ یہ دل ہے دشمن جاں
مرگ عاشق کا جو دلیل ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |