بے کسی میں اثر یگانہ ہے
Appearance
بے کسی میں اثر یگانہ ہے
دل بھی اس کا نہیں بیگانہ ہے
غرض آئینہ داری دل سے
تیرا جلوہ تجھے دکھانا ہے
مثل نقش قدم میں جب تئیں ہوں
آنکھیں ہیں اور یہ آستانا ہے
یہی تار نفس کی آمد و شد
جامۂ تن کا تانا بانا ہے
گلے ملنا نہ گو کہ ہاتھ لگے
لیک منظور دل ملانا ہے
نام عنقا نشان تیرے کا
جوں نگیں دل میں آشیانا ہے
دوست دشمن سبھی ہوئے ہیں تیرے
کیا برائی کا اب زمانا ہے
دل گم گشتہ کو میں ڈھونڈوں کہاں
نہ کہیں ٹھور نے ٹھکانا ہے
ہے دیوانہ بہ کار خود ہشیار
یہ نہ سمجھو اثرؔ دیوانا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |