بیتاب ہیں کسی کی نگاہیں نقاب میں
Appearance
بیتاب ہیں کسی کی نگاہیں نقاب میں
ہیں بجلیاں کہ کوند رہی ہیں سحاب میں
لکھوں گا خط میں خوب عدو کی برائیاں
ہو کر خفا وہ کچھ نہ لکھیں گے جواب میں
ہم کو ہے ان کی فکر تو ان کو عدو کی فکر
دونوں ہیں ایک سلسلۂ اضطراب میں
اس چھیڑ کے نثار کہ سن کر سوال وصل
آئینہ رکھ دیا مرے آگے جواب میں
یاروں میں بوئے مہر و محبت نہیں نسیمؔ
کیا خاک اڑ رہی ہے جہان خراب میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |