بنے ہو خاک سے تو خاکساری ہو طبیعت میں
بنے ہو خاک سے تو خاکساری ہو طبیعت میں
طبیعت ایسی بنتی ہے تو بنتی ہے محبت میں
بہائے جاؤ آنسو عمر بھر اس کی محبت میں
کہ ایسے لوگ موتی کے محل پاتے ہیں جنت میں
کہا حاضر میں کچھ حجت نہیں پھر مدعا پوچھا
ستم گر نے پلٹ دی بات اب حاضر ہے حجت میں
کسی سے اپنے حق میں کچھ سنا بھی ہے تو جانے دو
برا تو بادشاہ کو بھی کہا کرتے ہیں غیبت میں
محبت کی ذرا سی بات پر اتنے خفا کیوں ہو
ہوا کرتی ہیں آخر سیکڑوں باتیں محبت میں
نہیں لا سکتا ہر اک کوہ کن فرہاد کی قسمت
خدا بخشے بڑا انسان گزرا چھوٹی امت میں
تری ہر ایک تصویر اک ادائے خاص رکھتی ہے
کرے کیا فرق اب کوئی ضرورت اور زینت میں
یہ کیا سائل کے منہ پر توڑ کر ٹکڑا سا رکھ دینا
ارے بندے خدا کو منہ دکھانا ہے قیامت میں
جو بدلے دوست کا بھیس اس کو دشمن کس طرح جانوں
گیا حضرت کلیم اللہ کا نقال جنت میں
محبت بے اطاعت ایک دھوکہ ہے محبت کا
محبت کا جو دعویٰ ہے تو کوشش کر اطاعت میں
محبت اور محنت کوہ کن نے یہ بھی کی وہ بھی
الٹ ہے ایک نقطے کی محبت اور محنت میں
صفیؔ دنیا میں جینے کا مزہ کچھ بھی نہیں پایا
ہماری عمر کچھ غفلت میں گزری کچھ ندامت میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |