برہمن لے کے جو میرے لیے زنار آیا
برہمن لے کے جو میرے لیے زنار آیا
اس نے سمجھا کہ یہی بت کا خریدار آیا
خود خریدار ہوا حسن بتاں کا وہ کبھی
ہو کے یوسف وہ کبھی بر سر بازار آیا
شوق تھامے تھا کمر اور تمنا بازو
کوئے جاناں میں مرا جب دل بیمار آیا
لالہ رخ کیسا ہے دیکھوں تو ذرا چل کے اسے
کس لیے دل کی عمارت میں نہ وہ یار آیا
روز روشن سی شب تار ہوئی آنکھوں میں
جس گھڑی یاد ترا گیسوئے خم دار آیا
حسرت و یاس و تمنا کے ملے پشتارے
کارواں عشق کا مجھ تک یہ لیے بار آیا
کیا ڈراتا ہے مجھے تیغ دکھا کر قاتل
مقتل عشق میں مرنے کو میں تیار آیا
تلخیٔ مرگ بھی دینے لگی مجھ کو لذت
سر بالیں دم مردن جو مرا یار آیا
میرے دلبر کے تصور نے کیا اس کو حسیں
میں نہ سمجھا یہ قضا آئی کہ وہ یار آیا
کوئی لے جا کے مرے دل کو یہ کہتا اس سے
لے ترے گیسوئے پر خم کا گرفتار آیا
اے جمیلہؔ نہ ملا بت نہ ملا مجھ کو خدا
میں تو اس ہستئ موہوم میں بیکار آیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |