بتوں کے واسطے تو دین و ایماں بیچ ڈالے ہیں
Appearance
بتوں کے واسطے تو دین و ایماں بیچ ڈالے ہیں
یہ وہ معشوق ہیں جو ہم نے کعبے سے نکالے ہیں
وہ دیوانہ ہوں جس نے کوہ و صحرا چھان ڈالے ہیں
انہیں تلووں سے تو ٹوٹے ہوئے کانٹے نکالے ہیں
تراشی ہیں وہ باتیں اس ستم گر نے سر محفل
کلیجے سے ہزاروں تیر چن چن کر نکالے ہیں
جگر دل کے ورق ہیں وعدۂ دیدار سے روشن
انہیں کیوں دوں کسی کو یہ تو جنت کے قبالے ہیں
اگر منہ سے کہا کچھ تو بکھر ہی جائیں گے ٹکڑے
بڑی مشکل سے ہم ٹوٹے ہوئے دل کو سنبھالے ہیں
ہمیں ہیں موجد باب فصاحت حضرت شاعرؔ
زمانہ سیکھتا ہے ہم سے ہم وہ دلی والے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |