بات کرنے میں تو جاتی ہے ملاقات کی رات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بات کرنے میں تو جاتی ہے ملاقات کی رات
by امیر مینائی
295099بات کرنے میں تو جاتی ہے ملاقات کی راتامیر مینائی

بات کرنے میں تو جاتی ہے ملاقات کی رات
کیا بری بات ہے رہ جاؤ یہیں رات کی رات

ذرے افشاں کے نہیں کرمک شب تاب سے کم
ہے وہ زلف عرق آلود کہ برسات کی رات

زاہد اس زلف پھنس جائے تو اتنا پوچھوں
کہیے کس طرح کٹی قبلۂ حاجات کی رات

شام سے صبح تلک چلتے ہیں جام مے عیش
خوب ہوتی ہے بسر اہل خرابات کی رات

وصل چاہا شب معراج تو یہ عذر کیا
ہے یہ اللہ و پیمبر کی ملاقات کی رات

ہم مسافر ہیں یہ دنیا ہے حقیقت میں سرا
ہے توقف ہمیں اس جا تو فقط رات کی رات

چل کے اب سو رہو باتیں نہ بناؤ صاحب
وصل کی شب ہے نہیں حرف حکایات کی رات

لیلۃ القدر ہے وصلت کی دعا مانگ امیرؔ
اس سے بہتر ہے کہاں کوئی مناجات کی رات

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse