اے جذب دل وہ دن تو میسر خدا کرے
اے جذب دل وہ دن تو میسر خدا کرے
میرے لیے وہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرے
میں جان دوں وفا سے وہ مجھ پر جفا کرے
مرنا تو میرا اپنے ہی در پر روا کرے
پامال شوق سے دل عاشق کیا کرے
یہ بھی تماشا شوخیٔ رنگ حنا کرے
حسن بتاں میں شان الٰہی ہے کیا کہوں
بیٹھے نہ بت کدہ میں فدائی تو کیا کرے
اس نازنیں سے کہہ دے کہ بن جائے نور جاں
آنکھوں میں آئے کعبۂ دل میں رہا کرے
حالت کو میری سن کے عجب ناز سے صنم
کہتا ہے مجھ کو غم نہیں کوئی مرا کرے
دیکھے مرے صنم کو تو رہبان عشق بھی
صل علیٰ کہے کبھی شکر خدا کرے
کہہ دینا ان کے طالب دیدار سے یہی
مرأت کے دل میں صورت حیرت رہا کرے
اس آرزو نے مجھ کو بلایا ہے خاک میں
تا مشت خاک کو مرے وہ نقش پا کرے
پوچھا تھا میں نے قیس سے جا کر یہ دشت میں
جس میں نہ ہوئے صبر و تحمل وہ کیا کرے
بولا وہ ہنس کے جی سے گزرنا ہی خوب ہے
اس ابتدائے عشق کی یوں انتہا کرے
فصل بہار آئی ہے مجھ کو نہ روکئے
جاتا ہوں اب تو دشت میں کچھ بھی ہوا کرے
تصویر یار دل میں جمیلہؔ لیے رہو
کعبہ میں جا کے عاشق ناشاد کیا کرے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |