Jump to content

اے جان حسن افسر خوباں تمہیں تو ہو

From Wikisource
اے جان حسن افسر خوباں تمہیں تو ہو (1929)
by رادھے شیام رستوگی احقر
324352اے جان حسن افسر خوباں تمہیں تو ہو1929رادھے شیام رستوگی احقر

اے جان حسن افسر خوباں تمہیں تو ہو
میں اک گدائے عشق ہوں سلطاں تمہیں تو ہو

پہونچی ہے آسماں پہ تجلی جمال کی
کہتے ہیں لوگ مہر درخشاں تمہیں تو ہو

سچ سچ یہ کہہ رہا ہے تناسخ کا مسئلہ
روح عزیز یوسف کنعاں تمہیں تو ہو

آگے تمہارے سرو ہے غیرت سے پا بہ گل
صحن چمن میں سرو خراماں تمہیں تو ہو

ہر بات پر بگڑتے ہو رندوں سے شیخ جی
سارے جہاں میں ایک مسلماں تمہیں تو ہو

دل میرا لے کے تم نے کھلونا بنا لیا
دنیا میں ایک طفلک ناداں تمہیں تو ہو

باتوں میں سحر چال میں محشر نگہ میں قہر
ثابت ہے ان سے فتنۂ دوراں تمہیں تو ہو

دل دے کے تم کو کیوں نہ کہوں مایۂ حیات
میرے جگر تمہیں ہو مری جاں تمہیں تو ہو

مداح ہوں تمہارے نہ کس طرح حق پسند
احقرؔ بتوں کے ایک ثنا خواں تمہیں تو ہو


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).