اٹھا کر ناز سے برقع دکھا کر روئے زیبا کو
اٹھا کر ناز سے برقع دکھا کر روئے زیبا کو
تماشا کر دیا دلبر نے مجھ محو تماشا کو
مناسب تھی جو جا بس اس میں رکھے تحفۂ دلبر
نگہ میں یاس کو حسرت کو دل میں سر میں سودا کو
دکھاتی ہے مرے اشکوں کی طغیانی مجھے کیا کچھ
حباب دل کبھی دیکھا کبھی امواج دریا کو
خیال روئے زیبا میں تو دامان سحر دیکھا
شب فرقت تصور کر لیا زلف چلیپا کو
مریض ہجر تیرا میہماں ہے اب کوئی دم کا
دکھائے وقت آخر نبض اپنی کیا مسیحا کو
دل بیمار میں گھر کر لیا ہے درد نے اپنا
الٰہی میں رکھوں کس جا ان ارمان و تمنا کو
تمہیں تو اے صنم منظور اپنی پردہ پوشی تھی
دکھائی طور سینا پر تجلی کس نے موسیٰ کو
خجل کیسا کیا ہے دیدہ و دل نے فدائی کے
سبو کو جام کو مینا کو اور ساغر کو صہبا کو
چراغ عشق روشن کر دیا فرہاد و مجنوں نے
کیا آباد اس نے کوہ کو اور اس نے صحرا کو
رہا ویران بعد از مرگ حافظ ایک مدت تک
کیا آباد جا کر ہم نے گل گشت مصلےٰ کو
مرے پہلو کو موسیٰ دیکھ کر حیرت سے کہتے ہیں
چھپایا کس طرح دل میں جمیلہؔ اس تجلیٰ کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |