Jump to content

اذان

From Wikisource
اذان (1935)
by محمد اقبال
296293اذان1935محمد اقبال

اک رات ستاروں سے کہا نجمِ سحَر نے
آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار؟
کہنے لگا مرّیخ، ادا فہم ہے تقدیر
ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فتنے کو سزاوار
زُہرہ نے کہا، اور کوئی بات نہیں کیا؟
اس کرمکِ شب کور سے کیا ہم کو سروکار!
بولا مہِ کامل کہ وہ کوکب ہے زمینی
تم شب کو نمودار ہو، وہ دن کو نمودار
واقف ہو اگر لذّتِ بیداریِ شب سے
اُونچی ہے ثُریّا سے بھی یہ خاکِ پُر اسرار
آغوش میں اس کی وہ تجلّی ہے کہ جس میں
کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیّار
ناگاہ فضا بانگِ اذاں سے ہُوئی لبریز
وہ نعرہ کہ ہِل جاتا ہے جس سے دلِ کُہسار!


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.