اب دل میں تیرے تیر کا پیکاں نہیں رہا
اب دل میں تیرے تیر کا پیکاں نہیں رہا
کیونکر جیوں کہ زیست کا ساماں نہیں رہا
گردوں کی سمت دیکھ کے رخصت ہوا مریض
جب کوئی اس کے حال کا پرساں نہیں رہا
تاروں نے کر دیا تری وحشت کا راز فاش
اے رات تیرا حسن بھی پنہاں نہیں رہا
مجھ پر تو تیری آنکھ نے پھر کر غضب کیا
میں لطف گیر گردش دوراں نہیں رہا
فصل بہار کی مری وحشت نے دی خبر
اب دل سنبھالنا مجھے آساں نہیں رہا
اے یاس تو نے آ کے سہارا دیا مجھے
جب کوئی میرے حال کا پرساں نہیں رہا
پچھلے پہر شکست کی آواز آئی ہے
ٹوٹا ہے دل کہ ضبط کا امکاں نہیں رہا
اب دل میں تیرے تیر کے پیکاں کی یاد ہے
گو دل میں تیرے تیر کا پیکاں نہیں رہا
ہنستے ہیں پھول زخم پہ دشمن ہے باغباں
گلشن میں جی بہلنے کا ساماں نہیں رہا
جو درد تو نے جس کو دیا واہ رے اثر
اس درد کا جہان میں درماں نہیں رہا
وحشت بھری نگاہ نے ویران کر دیا
اب کیا کروں وہ رنگ گلستاں نہیں رہا
حسرت نے بے کسی میں کفن بن کے ڈھک لیا
اب لاشہ مجھ غریب کا عریاں نہیں رہا
افسرؔ مشاعروں میں ہے کیوں میری جستجو
میں تو مشاعروں میں غزل خواں نہیں رہا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |