اب تو ہجوم یاس کی کچھ انتہا نہیں
اب تو ہجوم یاس کی کچھ انتہا نہیں
یعنی مجھے امید کا بھی آسرا نہیں
کب ہم سے بے دلوں پہ نگاہ جفا نہیں
ہم خوب جانتے ہیں کہ تو بے وفا نہیں
اے رشک پردہ سوز شکایت کی جا نہیں
وہ بزم ناز ہے دل بے مدعا نہیں
دکھلائے پھر خدا نہ وہ مایوسیوں کے دن
ہوتا تھا یہ خیال کہ ہے یا خدا نہیں
اللہ رے بے نیازیٔ آسودگان خواب
اس قرب پر کسی سے کوئی بولتا نہیں
آتی ہے ذرے ذرے سے آواز بازگشت
پھر بھی یہ کہہ رہا ہے ابھی کچھ کہا نہیں
وہ خود بھی دفن ہو گئی اہل وفا کے ساتھ
بے کار ڈھونڈھتا ہے جہاں میں وفا نہیں
ہے جلوہ ریز بزم تصور جمال یار
اے شوق دید اب یہ تغافل روا نہیں
صدقے ترے کرم کے نہ دے زحمت سوال
کشکول ہے فقیر کا دست دعا نہیں
محرومیوں سے ذوق ہے مجبوریوں سے عشق
میں کامیاب ہوں یہ مرا مدعا نہیں
وہ دید ہائے شوق کہ دیکھیں ترا جمال
کس کا بہشت کچھ بھی انہیں دیکھتا نہیں
کیوں اس کے چومتے ہی نہ معراج ہو نصیب
بیخودؔ خدا کا ہاتھ ہے دست دعا نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |