Jump to content

آسماں پر ہے دماغ اس کا خود آرائی کے ساتھ

From Wikisource
آسماں پر ہے دماغ اس کا خود آرائی کے ساتھ (1929)
by رادھے شیام رستوگی احقر
324348آسماں پر ہے دماغ اس کا خود آرائی کے ساتھ1929رادھے شیام رستوگی احقر

آسماں پر ہے دماغ اس کا خود آرائی کے ساتھ
ماہ کو تولے گا شاید اپنی رعنائی کے ساتھ

سیر کر عالم کی غافل دیدنی ہے یہ طلسم
لطف ہے ان دونوں آنکھوں کا تو بینائی کے ساتھ

دل کہیں ہے جاں کہیں ہے میں کہیں آنکھیں کہیں
دوستی اچھی نہیں محبوب ہرجائی کے ساتھ

اس میں ذکر یار ہے اس میں خیال یار ہے
اپنی خاموشی بھی ہم پلہ ہے گویائی کے ساتھ

عہد پیری میں وہ عالم نوجوانی کا کہاں
ولولے جاتے رہے ساری توانائی کے ساتھ

دیدۂ آہو کہاں وہ انکھڑیاں کالی کہاں
کیا مقابل کیجیے شہری کو صحرائی کے ساتھ

دل نہیں گرگ بغل ہے ضبط سے خوں کر اسے
کار دشمن کرتے ہیں اے دوست دانائی کے ساتھ

ایک بوسہ پر گریباں گیر اے ناداں نہ ہو
تیری رسوائی بھی ہے عاشق کی رسوائی کے ساتھ

دل تو دیوانہ ہے احقرؔ تو بھی دیوانہ نہ ہو
کوئی سودائی بنا کرتا ہے سودائی کے ساتھ


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).