آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے
Appearance
آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے
گر خاک کے ساتھ اس کو سروکار نہ ہووے
کیا خاک کہو اس میں تجلی ہو نمایاں
خورشید کا جو ذرہ پرستار نہ ہووے
گر مہر نہ ہو داغ کے الفت کی گواہی
منظور مرے درد کا طومار نہ ہووے
دل خواب کی غفلت سے مبادا کہیں چونکے
یہ فتنۂ خوابیدہ ہی بیدار نہ ہووے
عشق اہل وفا بیچ اسے قدر ہے کیا خاک
وہ دل کہ جو گرد رہ دل دار نہ ہووے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |