کی راہ سے جھانکتی تھی۔ کہ اتنے میں ایک شہزادہ اس راستے سے گزرا اور مجھ پر عاشق ہوا۔ اس گھڑی مجھے اپنے پاس بلاتا ہے اگر تو کہے تو میں جاؤں اور اُس سے ملاقات کروں پھر دو چار گھڑی کے بعد اپنے گھر چلی آونگی یہ بات سنتے ہی مینا نہایت غضبناک ہوئی اور غوغا کر کے کہنے لگی کہ واہ وابی بی اچھے ڈہنگ نکالتی ہو اور خاصی باتیں سناتی ہو کیا خوب غیر مرد کے گھر جاؤگی اور اس سے دوستی کرسا اپنے شوہر کی حرمت گنواؤگی یہ بڑا عیب ہے تمہاری قوم کے لوگ کیا کہیں گے اس حرکت سے باز آؤ یہ سنتے ہی خجستہ نے اُسے پنجرے سے نکال ایک ٹانگ پکڈ گردن مروڑ زور سے زمین پر دے پٹکا کہ روح اس کی آسمان پر پرواز کر گئی اور اسیطرح غصے میں بھری ہوئی طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ اے طوطے کچھ حقیقت مینا کی دیکہی کہ وہ ابھی کیا تھی اور کیا ہو گئی اُس نے کہا کہ جی دیکہی جو خداوند کی بےادبی کرے گا اس کا یہی حال ہو گا خجستہ خوش ہو کر کہنے لگی کہ اے طوطے بہت دن ہوئے کہ میں نے مرد کی صورت نہیں دیکہی اور آج ایک بادشاہ زادے نے مجھ کو مبنت بلوایا ہے اگر تو کہے تو اسکے پاس رات کیوقت جاؤں اور صبح ہوتے ہوتے اپنی جگہ پر آؤں طوطا اپنے جی میں ڈر کر کہنے لگا کہ اگر میں بھی منع کرتا ہوں یا اور کچھ کہتا ہوں تو ابھی مینا کی طرح سے مارا جاتا ہوں یہ سمجھ کر کہنے لگا کہ اے کدبانو مینا ناقص عقل تھی ۔ اور اکثر یہ خلقت عورتوں کی بیوقوف ہوتی ہے اسی واسطے شعور مند کو لازم ہے کہ اپنا احوال ان سے نہ کہیں بلکہ اس ذات سے پرہیز کریں تو خاطر جمع رکھ جلدی مت کر جبتکہ میری جان اس قالب میں ہے تب تک تیرے کام میں پیروی کرونگا اتنا مت گھبرا کریم کا رسانہ جلد آسان کریگا خدانخواستہ اگر یہ بات ظاہر ہوئی اور اڑتے اڑنے تیے شہر یا پہنچی اور اسنے آکر تجھ سے خنگی کی تویں ایک بات بنا کر تم دونوں کو آپسمیں ملا دونگا جس طرح سے کہ اُس طوطے نے فرخ بیگ سے دیگر کو سے ملا دیا تھا خجستہ نے پوچھا کہ اسکی نقل کیونکر ہے مفضل بیان کر کہ میں تیری احسانمند رہونگی ۔
تیسری داستان فرخ بیگ سوداگر اور اُسکے طوطے کی
طوطے نے کہا کہ کسی شہر میں ایک سوداگر فرخ بیگ نام نہایت مالدار تھا اور ایک طوطا عقلمند اپنے پاس رکھتا تھا اتفاقاً اس سوداگر کو سفر پیش ہوا۔ تب ہر ایک اسباب اپنے گھر کا بی بی سمیت طوطے کے حوالے کیا اور آپ واسطے سوداگری کے کسی شہر میں گیا اور کئی مہینے وہاں کار تجارت میں رہا اسکے جانیکے بعد کئی دن پیچھے اُسکی جورو نے ایک جوان مغل بچے سے آشنائی کی اور ہمیشہ رات کو اُسے اپنے گھر بلاتی صبح تک اس کیساتھ عیش وعشرت کرتی یہ احوال ان دونوں کا طوطا دیکہتا اور باتیں اُسکے اختلاط کی سُنتا لیکن دیکھا سنا اپنے دل میں چھپارکھتا بعد ڈیڑھ برس کے وہ تاجر اپنے گھر آیا اور حقیقت گذری ہوئی اپنے گھر کی اس طوطے سے پوچھی کہ میرے پیچھے کسطرح سے گذری اور کس کس نے کیا کیا