Author:میر حسن دہلوی
Appearance
میر حسن دہلوی (1727 - 1786) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں
- آنکھوں میں ہیں حقیر جس تس کے
- دل بر سے ہم اپنے جب ملیں گے
- منہ کہاں یہ کہ کہوں جائیے اور سو رہئے
- آج دل بیقرار ہے کیا ہے
- جان میں جان تبھی قیس کے بس آتی ہے
- ہے دھیان جو اپنا کہیں اے ماہ جبیں اور
- چل دل اس کی گلی میں رو آویں
- دل خدا جانے کس کے پاس رہا
- مجنوں کو اپنی لیلیٰ کا محمل عزیز ہے
- صنم پاس ہے اور شب ماہ ہے
- بس دل کا غبار دھو چکے ہم
- دل مرا آج میرے پاس نہیں
- یار کا دھیان ہم نہ چھوڑیں گے
- غیر کو تم نہ آنکھ بھر دیکھو
- جان و دل ہیں اداس سے میرے
- بس گیا جب سے یار آنکھوں میں
- دامن کو اس کے کھینچیں اغیار سب طرف سے
- اس دل میں اپنی جان کبھی ہے کبھی نہیں
- آن کر غم کدۂ دہر میں جو بیٹھے ہم
- آپ کو اس نے اب تراشا ہے
- فائدہ آنے سے ایسے آ کے پچھتائیں ہیں ہم
- سوز دل کا ذکر اپنے منہ پہ جب لاتے ہیں ہم
- آنکھوں سے خون اپنے یہ کہتا نہیں نہ جائے
- ہم سے تو کسی کام کی بنیاد نہ ہووے
- وفادار ہو یا جفا کار تم ہو
- دل دار دل اس طرح بہم آئے نظر میں
- دل کی زمیں سے کون سی بہتر زمین ہے
- کسی موسم کی وہ باتیں جو تیری یاد کرتا ہوں
- مل گئے اپنے یار سے اب کی
- کل جو تم ایدھر سے گزرے ہم نظر کر رہ گئے
- دل بچھڑ کر جو چلا اس بت مغرور تلک
- ہم سے کر تو کہ یا نہ کر اخلاص
- دل غم سے ترے لگا گئے ہم
- دیکھ دروازے سے مجھ کو وہ پری رو ہٹ گئی
- نوجوانی کی دید کر لیجے
- نے فقہ نہ منطق نے حکمت کا رسالہ ہے
- شب کو تم ہم سے خفا ہو کر سحر کو اٹھ گئے
- اس کی جب بزم سے ہم ہو کے بتنگ آتے ہیں
- ہم قتل ہو گئے نہیں تجھ کو خبر ہنوز
- چشم تر رات مجھ کو یاد آئی
- کہتا نہ تھا میں اے دل تو اس سے جی لگا نہ
- نغمہ و عشق سے ہیں سبحہ و زنار ملے
- کہیں جو دل نہ لگاویں تو پھر اداس پھریں
- وہ دلبری کا اس کی جو کچھ حال ہے سو ہے
- یا صبر ہو ہمیں کو اس طرف جو نہ نکلیں
- اتنے آنسو تو نہ تھے دیدۂ تر کے آگے
- خواہ سچ جان مری بات کو تو خواہ کہ جھوٹ
- گل ہے زخمی بہار کے ہاتھوں
- مجھ کو عاشق کہہ کے اس کے روبرو مت کیجیو
- کوئی نہیں کہ یار کی لاوے خبر مجھے
- نہ برگ ہوں میں گل کا نہ لالے کا شجر ہوں
- نہ ہم دعا سے اب نہ وفا سے طلب کریں
- یوں غیر کچھ کہیں تو بلا کو بری لگے
- وہ نہیں ہم جو ڈر ہی جاویں گے
- دل کو اس شوخ کے کوچہ میں دھرے آتے ہیں
- وصل کا عیش کہاں پر غم ہجراں تو ہے
- آہوں سے مرے گھر میں ہوا گرم رہے گی
- نہ رہا گل نہ خار ہی آخر
- اس ڈر سے میں نے زلف کی اس کی نہ بات کی
- جگر سوختہ ہیں اور دل بریاں ہیں ہم
- کیا کہیں پوچھ مت کہیں ہیں ہم
- منہ اپنا خشک ہے اور چشم تر ہے
- اس کے کوچے سے صبا گر ادھر آ جاتی ہے
- جس شخص کی ہو زیست فقط نام سے تیرے
- جب تلک تیر ترا آوے ہے نخچیر تلک
- عرق کو دیکھ منہ پر تیرے پیارے
- تیر پر تیر لگے تو بھی نہ پیکاں نکلے
- رکھتا ہے صلح سب سے دل اس کا پہ مجھ سے جنگ
- ٹک دیکھ لیں چمن کو چلو لالہ زار تک
- دور سے باغ جہاں دکھلا کے دیوانہ کیا
- اے گرد باد طرف چمن ٹک گزار کر
- وصل بھی ہوگا حسنؔ تو ٹک تو استقلال کر
- سب نقش اس فلک کے نگینے پہ آ رہے
- میں کہا تھا کبھی سے یہ کچھ ہے
- ہم نہ تنہا اس گلی سے جاں کو کھو کر اٹھ گئے
- محبت میں تری جب مجھ کو عالم نے ملامت کی
- کیوں کر بھلا لگے نہ وہ دل دار دور سے
- مزا بے ہوشیٔ الفت کا ہوشیاروں سے مت پوچھو
- کیوں رنگ سرخ تیرا اب زرد ہو گیا ہے
- جلد حسن و جمال جاتا ہے
- شمع ساں شب کے میہماں ہیں ہم
- نہ باغ سے غرض ہے نہ گل زار سے غرض
- سب کو ہے منظور اس رخسار گل گوں کی طرف
- دید کی سد راہ ہے یہ مژہ
- سو کی اک بات میں کہی تو ہے
- کون کرتا ہے سر زلف کی باتیں دل میں
- تیری مدد سے تیرا ادراک ہو سکے ہے
- نظر کرو وحدت و کثرت بہم شامل ہیں شیشہ میں
- یاں سے پیغام جو لے کر گئے معقول گئے
- نگہ سے چشم سے ناز و ادا سے
- بس کہ چوں بدر زمانہ یہ گھٹاتا ہے مجھے
- نہ ملا وہ نفاق کے مارے
- دریا میں ڈوب جاوے کہ یا چاہ میں پڑے
رباعی
[edit]- ظاہر بھی تو ہے اور نہاں بھی تو ہے
- نہ مے کے نہ جام کے لئے مرتے ہیں
- دل تجھ پہ مرا جو مبتلا رہتا ہے
- بلبل کی ہزار آشنائی دیکھی
مثنوی
[edit]
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |