Jump to content

یہ کس کے سوز کا ہے بزم جاں میں انتظار اے دل

From Wikisource
یہ کس کے سوز کا ہے بزم جاں میں انتظار اے دل
by شاہ دین ہمایوں
317359یہ کس کے سوز کا ہے بزم جاں میں انتظار اے دلشاہ دین ہمایوں

یہ کس کے سوز کا ہے بزم جاں میں انتظار اے دل
کہ آہیں آج سوئے عالم بالا نہیں جاتیں

امیدیں جب مری بڑھ آئیں تو ہنس کر لگے کہنے
یہ برسوں قید دل میں رہ کے کیوں گھبرا نہیں جاتیں

نہیں گستاخ آئینہ مقابل ہے کھڑا کوئی
یہ حیراں ہے کہ کیوں آنکھیں تری شرما نہیں جاتیں

کھڑا ہوں انتظار یار میں جوں شاخ نرگس میں
مجھے حیرت ہے کیوں آنکھیں مری پتھرا نہیں جاتیں

ترے گلشن میں تاروں کی بہار اک ہے عجب جادو
یہ کلیاں پھول بن کر اے فلک کمھلا نہیں جاتیں

ہمایوںؔ تیرا دل بھی گلشن حسرت کا نغمہ ہے
خوشی میں بھی تری باتیں وہ غم افزا نہیں جاتیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.