Jump to content

یہ کس قیامت کی بیکسی ہے زمیں ہی اپنا نہ یار میرا

From Wikisource
یہ کس قیامت کی بیکسی ہے زمیں ہی اپنا نہ یار میرا
by فانی بدایونی
299761یہ کس قیامت کی بیکسی ہے زمیں ہی اپنا نہ یار میرافانی بدایونی

یہ کس قیامت کی بیکسی ہے زمیں ہی اپنا نہ یار میرا
نہ خاطر بے قرار میری نہ دیدۂ اشک بار میرا

نشان تربت عیاں نہیں ہے نہیں کہ باقی نشاں نہیں ہے
مزار میرا کہاں نہیں ہے کہیں نہیں ہے مزار میرا

وصال تیرا خیال تیرا جو ہو تو کیونکر نہ ہو تو کیونکر
نہ تجھ پہ کچھ اختیار دل کا، نہ دل پہ کچھ اختیار میرا

نگاہ دل دوز کی دہائی جمال جاں سوز کی دہائی
رہ محبت میں غم نے لوٹا شکیب و صبر و قرار میرا

میں درد فرقت سے جاں بلب ہوں تمہیں یقین وفا نہیں ہے
مجھے نہیں اعتبار اپنا تمہیں نہیں اعتبار میرا

قدم نکال اب تو گھر سے باہر جو دم بھی سینے سے سہل نکلے
دکھا نہ اب انتظار اپنا لحد کو ہے انتظار میرا

سنا ہے اٹھا ہے اک بگولہ جلو میں کچھ آندھیوں کو لے کر
طواف دشت جنوں کو شاید گیا ہے فانیؔ غبار میرا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.