یہ قطرۂ شبنم نہیں اے سوز جگر آج
Appearance
یہ قطرۂ شبنم نہیں اے سوز جگر آج
ڈوبی ہوئی آئے ہے پسینوں میں سحر آج
بے وجہ نہیں فطرت شوخی کا گزر آج
تم آنکھ ملا کر جو چراتے ہو نظر آج
وہ آئے عیادت کو تو آئی ہے قضا بھی
مہماں ہوئے اک وقت میں دو دو مرے گھر آج
ارمان نکلنے دیے کس سوختہ دل کا
ہے وصل کی شب بول نہ اے مرغ سحر آج
وہ کعبۂ دل توڑتے ہیں سنگ جفا سے
برباد ہوا جاتا ہے اللہ کا گھر آج
ہر اشک کے دامن میں ہے اک منظر طوفاں
کیا ڈوب ہی جائے گی یہ کشتئ نظر آج
ڈوبی ہوئی نبضیں یہ پتہ دیتی ہیں مجھ کو
اے اوجؔ نہ ہوگی شب فرقت کی سحر آج
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |