Jump to content

یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں

From Wikisource
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں
by ظہیر دہلوی
300046یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیںظہیر دہلوی

یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں
جب آنکھیں چار ہوتی ہیں مروت آ ہی جاتی ہے

وہ اپنی شوخیوں سے کوئی اب تک باز آتے ہیں
ہمیشہ کچھ نہ کچھ دل میں شرارت آ ہی جاتی ہے

نہ الجھو طعنۂ دشمن پہ ایسا ہو ہی جاتا ہے
جہاں اخلاص ہوتا ہے شکایت آ ہی جاتی ہے

لیا جب نام الفت کا بدل جاتی ہے سیرت بھی
نگاہ شرم آگیں میں شرارت آ ہی جاتی ہے

کبھی چتون سے ان بن ہے کبھی سودا ہے گیسو کا
نصیبوں کی یہ شامت ہے کہ شامت آ ہی جاتی ہے

ہمیشہ عہد ہوتے ہیں نہیں ملنے کے اب ان سے
وہ جب آ کر لپٹتے ہیں محبت آ ہی جاتی ہے

کہیں آرام سے دو دن فلک رہنے نہیں دیتا
ہمیشہ اک نہ اک سر پر مصیبت آ ہی جاتی ہے

حساب دوستاں در دل تقاضا ہے محبت کا
مثل مشہور ہے الفت سے الفت آ ہی جاتی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.