یہ دل ہے تو آفت میں پڑتے رہیں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ دل ہے تو آفت میں پڑتے رہیں گے
by امداد علی بحر
302744یہ دل ہے تو آفت میں پڑتے رہیں گےامداد علی بحر

یہ دل ہے تو آفت میں پڑتے رہیں گے
یوں ہی ایڑیاں ہم رگڑتے رہیں گے

محبت ہے بد نام کیوں کر بنے گی
وہ ہم سے ہمیشہ بگڑتے رہیں گے

اگر عشق رکھتا ہے تو عقل کھو دے
یہ دونوں رہیں گے تو لڑتے رہیں گے

برے دن بری ساعتیں عشق میں ہیں
سب احباب ہم سے بچھڑتے رہیں گے

وہ سر کاٹ ڈالیں ہمارا تو کیا غم
غرض ایسے ہی پاؤں پڑتے رہیں گے

کہیں عاشقوں کا ٹھکانا نہیں ہے
زمانے میں بستی اجڑتے رہیں گے

جنوں نے تماشا بنایا ہے ہم کو
دریچوں کے پردے ادھڑتے رہیں گے

کبھی زلف سے ہو سکیں گے نہ سر بر
اسی پیچ سے ہم پچھڑتے رہیں گے

نہ خط بھیجنا ہم سے موقوف ہوگا
کبوتر کی شہہ پر اکھڑتے رہیں گے

جو کچھ ہم نے چاہا انہوں نے نہ چاہا
ہم اس مسئلے میں جھگڑتے رہیں گے

غم و درد زیور ہے ہم عاشقوں کا
نگیں داغ کے دل میں جڑتے رہیں گے

قدم مے کدے سے نہ نکلے گا باہر
یہیں نشہ میں گرتے پڑتے رہیں گے

جدائی میں اے بحرؔ مرنا بھلا ہے
جییں گے تو خفت سے گڑتے رہیں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse