یہ جسم زار ہے یوں پیرہن کے پردے میں
یہ جسم زار ہے یوں پیرہن کے پردے میں
کہ جیسے روح نہاں ہے بدن کے پردے میں
سوائے اہل سخن ہو مشاہدہ کس کو
نہاں ہے شاہد معنی سخن کے پردے میں
تلاش جس کی ہے دن رات تجھ کو اے غافل
چھپا ہوا ہے وہ تیرے ہی تن کے پردے میں
جو عندلیب کی آنکھوں سے دیکھے وہ سمجھے
ظہور ہے اسی گل کا چمن کے پردے میں
شب سیاہ جدائی میں روشنی ہو کہیں
لگاؤں آگ میں بیت الحزن کے پردے میں
طریق عشق چھڑایا ہے تو نے غارت گر
ملا ہے خضر مجھے راہزن کے پردے میں
لطافت ایسی ہے تجھ میں کہ دیکھتا ہوں صاف
گہر سے دانت ہیں درج دہن کے پردے میں
برنگ زر کوئی کپڑوں میں آگ رہتی ہے
نہ میرے داغ چھپیں گے کفن کے پردے میں
نقاب سے ترے ابرو جو سلخ کو کھل جائیں
تو ماہ نور ہے چرخ کہن کے پردے میں
اگر تم آئے تھے شیریں کے بھیس میں صاحب
تو ساتھ بندہ بھی تھا کوہ کن کے پردے میں
نمود ہو نہ ترے خط عنبر افشاں کی
رہے وہ جلد عذار و ذقن کے پردے میں
چمن میں لائی صبا کس کی بو جو آج شمیم
دمک رہی ہے گل یاسمن کے پردے میں
نظر سے تھا شرر سنگ کی طرح جو نہاں
وہ بت ملا مجھے اک بت شکن کے پردے میں
تمہارے روئے مخطط کا منہ چڑھاتے ہیں
یہ مہر و ماہ پری رو گہن کے پردے میں
ہزاروں پڑ گئے تیر نگاہ سے سوراخ
ہمارے اس بت ناوک فگن کے پردے میں
خبر نہ شام غریبی کی مجھ کو تھی ناسخؔ
چھپی ہوئی تھی یہ صبح وطن کے پردے میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |