یہی بے لوث محبت یہی غم خوارئ خلق
Appearance
یہی بے لوث محبت یہی غم خوارئ خلق
اور معراج کسے کہتے ہیں انسانوں کی
نام ہے کیا اسی ہنگامے کا آغاز شباب
ایک آندھی سی چلی آتی ہے ارمانوں کی
جس قدر عشق سے ہوتی ہے فزوں وسعت فکر
عقل رکھتی ہے بنائیں نئے زندانوں کی
اپنی موت اپنی تباہی کی طرف کیا دیکھیں
کہ نگاہیں طرف شمع ہیں پروانوں کی
ہو گئی عمر بہاروں کے تصور میں تمام
سیر کرتے رہے نادید گلستانوں کی
ماسوا اس کے نہیں اور کچھ افسانۂ ہند
ایک تاریخ ہے اجڑے ہوئے کاشانوں کی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |