Jump to content

یوں مجھے آپ سے اب کرتی ہے تقدیر جدا

From Wikisource
یوں مجھے آپ سے اب کرتی ہے تقدیر جدا
by بخش ناسخ
315762یوں مجھے آپ سے اب کرتی ہے تقدیر جدابخش ناسخ

یوں مجھے آپ سے اب کرتی ہے تقدیر جدا
جس طرح جنگ میں ہو قبضے سے شمشیر جدا

مس کے زر ہونے سے بہتر ہے کمال انساں
خاکساری ہے جدا اور ہے اکسیر جدا

جائے دنداں لب سوفار ہوئے اے قاتل
دہن زخم سے ہوگا نہ ترا تیر جدا

مرض عشق میں پیٹھ اپنی یہ بستر سے لگی
نہ کبھی صفحہ سے جس شکل ہو تصویر جدا

اے جنوں پاؤں ہیں جب تک یہ تمنا ہے مجھے
کبھی مانند رگوں کے نہ ہو زنجیر جدا

چھوڑوں کیا پیری میں شیریں دہنوں کی صحبت
نہیں ممکن کہ ہوں مل کر شکر و شیر جدا

کہتے ہیں دیکھ کے زلف اس کے رخ تاباں پر
کبھی ہوتا نہیں اس شمع سے گل گیر جدا

جب جدائی کے مضامین مجھے سوجھے ہیں
حرف سے حرف ہوا ہے دم تحریر جدا

کیوں نہ ہو جلوۂ خورشید سے سائے کا وجود
کیا ترے چہرے سے ہو زلف گرہ گیر جدا

مجھ گرفتار جدائی کے جو پاؤں میں پڑی
ہو جنوں حلقے سے ہر حلقۂ زنجیر جدا

میں نے جو درد جدائی سے کیے ہیں نالے
کیجیے تن سے مرا سر پئے تعزیر جدا

تیغ آہن سے سوا ہے برش تیغ زباں
حق کو باطل سے کرے گی تری تقریر جدا

آشنا متحد اس درجہ کہاں ہوتے ہیں
آپ دلگیر ہے ناسخؔ جو ہے دلگیر جدا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.