Jump to content

یار ہیں چیں بر جبیں سب مہرباں کوئی نہیں

From Wikisource
یار ہیں چیں بر جبیں سب مہرباں کوئی نہیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316340یار ہیں چیں بر جبیں سب مہرباں کوئی نہیںغلام علی ہمدانی مصحفی

یار ہیں چیں بر جبیں سب مہرباں کوئی نہیں
ہم سے ہنس کر بولنے والا یہاں کوئی نہیں

قسمت اک شب لے گئی مجھ کو جو باغ وصل میں
دیکھتا کیا ہوں کہ اس کا باغباں کوئی نہیں

برق گلشن میں پڑی کس کے تبسم سے صبا
جو نہ جھلسا ہووے ایسا آشیاں کوئی نہیں

وائے ناکامی کہ فریادی ہیں ہم اس شہر میں
جز خموشی داد رس اپنا جہاں کوئی نہیں

صبح ہوتے خواب غفلت سے جو چونکے ہم تو ہائے
آنکھ کے کھلتے ہی دیکھا کارواں کوئی نہیں

اے دل بے جرأت اتنی بھی نہ کر بے جرأتی
جز صبا اس گل کا اس دم پاسباں کوئی نہیں

دو گھڑی مل بیٹھیں ہم تم ایک دم جو چین سے
ہائے زیر آسماں ایسا مکاں کوئی نہیں

میں جو پوچھوں ہوں ترے گھر میں بھی آتا ہے کوئی
یوں کہے ہے پھیر کر منہ میں زباں کوئی نہیں

منہ اٹھائے جاتے ہیں یوں دشت غربت میں چلے
نابلد ہیں سب ہی ہم میں راہ داں کوئی نہیں

"ٹھہریو ٹک ٹھہریو" کی آئے ہے آواز سی
دیکھیو پیچھے تو آج اے ہمرہاں کوئی نہیں

خواب گہ سے کیا اڑا کر لے گئی اس کو صبا
اور سب زیور ہے اس کا عطرداں کوئی نہیں

مصحفیؔ کیا خاک ہم شعر و سخن پر جی لگائیں
شاعری یہ کچھ ہے لیکن قدرداں کوئی نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.