یار اٹھ گئے دنیا سے اغیار کی باری ہے
Appearance
یار اٹھ گئے دنیا سے اغیار کی باری ہے
گل سیر چمن کر گئے اب خار کی باری ہے
زاہد نے عبادت چھوڑ اس زلف سے الجھا ہے
تسبیح کی شیخی گئی زنار کی باری ہے
اس کاکل مشکیں کی بو ہوئی ہے پریشاں آ
سب شہر ختن لٹ گئے تاتار کی باری ہے
گلشن میں خراماں ہو اب برقعہ اٹھایا ہے
سب گر گیا سروستاں گل زار کی باری ہے
کر زخمی نگاہوں سے اب دل پہ اٹھایا ہاتھ
نیزوں کی گئی نوبت تروار کی باری ہے
دل پر ہیں جہاں کے سب باہم کی کدورت سے
آئینوں کی صافی گئی زنگار کی باری ہے
جھڑ گئے وہ تبسم سے گل غنچے کھڑے ہیں سرو
تمکیں نے چمن لوٹا رفتار کی باری ہے
ان زلفوں کے عقرب نے دل میرا ڈسا عزلتؔ
پیچھے پڑی ہے چوٹی اب مار کی باری ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |