یاروں کے اخلاص سے پہلے دل کا مرے یہ حال نہ تھا
Appearance
یاروں کے اخلاص سے پہلے دل کا مرے یہ حال نہ تھا
اب وہ چکناچور پڑا ہے جس شیشے میں بال نہ تھا
انساں آ کر نئی ڈگر پر کھو بیٹھا ہے ہوش و حواس
پہلے بھی بے ہوش تھا لیکن ایسا بھی بد حال نہ تھا
گلشن گلشن ویرانی ہے جنگل جنگل سناٹا
ہائے وہ دن جب ہر منزل میں شورش غم کا کال نہ تھا
کیوں رے دوانے شہر یہی ہے اک اک پل بھاری ہے جہاں
اپنے ویرانے میں اے دل جی کا یہ جنجال نہ تھا
ہم جو لٹے اس شہر میں جا کر دکھ لوگوں کو کیوں پہنچا
اپنی نظر تھی اپنا دل تھا کوئی پرایا مال نہ تھا
تیری خاک پہ روشن روشن اخترؔ جیسے ستارے تھے
تجھ سا اے مہران کی وادی کوئی بلند اقبال نہ تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |