Jump to content

یارب چمنِ نظم کو گلزارِ اِرم کر

From Wikisource
یارب چمنِ نظم کو گلزارِ اِرم کر
by میر انیس
294912یارب چمنِ نظم کو گلزارِ اِرم کرمیر انیس

یارب چمنِ نظم کو گلزارِ اِرم کر
اے ابرِ کرم خشک زراعت پہ کرم کر
تو فیض کا مبدا ہے توجہ کوئی دَم کر
گمنام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر
جب تک یہ چمک مہر کے پر تو سے نہ جائے
اقلیم سخن میرے قلم رَو سے نہ جائے

اس باغ میں چشمے ہیں ترے فیض کے جاری
بلبل کی زباں پر ہے تری شکر گزاری
ہر نخل برومند ہے یا حضرتِ باری
پھل ہم کو بھی مل جائے ریاضت کا ہماری
وہ کل ہوں عنایت چمن طبعِ نِکو کو
بلبل نے بھی سونگھا نہ وہ جن پھولوں کی بو کو

غواص طبیعت کو عطا کر وہ لالیٰ
ہو جن کی جگہ تاجِ سرِ عرش پہ خالی
ایک ایک لڑی نظمِ ثریا سے ہو عالی
عالم کی نگاہوں سے گرے قطبِ شمالی
سب ہوں دریکتا نہ علاقہ ہو کسی سے
نذر ان کی یہ ہوں گے جنہیں رشتہ ہے نبی سے

بھر دے درِ مقصود سے اس درجِ وہاں کو
دریائے معانی سے بڑھا طبع رواں کو
آگاہ کر اندازِ تکلم سے زباں کو
عاشق ہو فصاحت بھی وہ دے حسن بیاں کو
تحسیں کا سموت سے غل تابہ سمک ہو
ہرگوش بنے کانِ ملاحت وہ نمک ہو

تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
قطرے کو جو دوں آپ تو گوہر سے ملا دوں
ذرے کی چمک مہرِ منور سے ملا دوں
خاروں کو نزاکت میں گلِ تر سے ملا دوں
گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

گر بز کی جانب ہو توجہ دمِ تحریر
کھنچ جائے ابھی گلشنِ فردوس کی تصویر
دیکھے نہ کبھی صحبت انجم فلک پیر
ہوجائے ہوا بزمِ سلیماں کی بھی توقیر
یوں تختِ حسینان معانی اتر آئے
ہر چشم کو پریوں کا اکھاڑا نظر آئے

ساقی کے کرم سے ہو وہ دور اور چلیں جام
جس میں عوضِ نشہ ہو کیفیت انجام
ہر مست، فراموش کرے گردشِ ایام
صوفی کی زباں بھی نہ رہے فیض سے ناکام
ہاں بادہ کشو پوچھ لو میخانہ نشیں سے
کوثر کی یہ موج آ گئی ہے خلدِ بیرں سے

آؤں طرفِ رزم ابھی چھوڑ کے جب بزم
خیبر کی خبر لائے مری طبعِ اولو العزم
قطعِ سرِ اعداد کا ارادہ ہو جو بالجزم
دکھلائے یہں سب کو زباں معرکۂ رزم
جل جائیں عدد آگ بڑھکتی نظر آئے
تلوار پہ تلوار چمکتی نظر آئے

مصرع ہوں صف آرا سفتِ لشکرِ جرار
الفاظ کی تیزی کو نہ پہونچے کوئی تلوار
نقطے ہوں جو ڈھالیں تو الفِ خنجر خونخوار
مَد آگے بڑھیں برچھیوں کو تول کے اک بار
غل ہو کبھی یوں فوج کو لڑتے نہیں دیکھا
مقتل میں رن ایسا کبھی پڑتے نہیں دیکھا

ہو ایک زباں ماہ سے تامسکن ماہی
عالم کو دکھا دے برشِ سیفِ الہٰی
جرأت کا دھنی تو ہے یہ چلائیں سپاہی
لاریب ترے نام پہ ہے سکۂ شاہی
ہر دم یہ اشارہ ہو دوات اور قلم کا
تو مالک و مختار ہے اس طبل و علم کا

تائید کا ہنگام ہے یا حیدرؑ صفدر
امداد ترا کام ہے یا حیدرؑ صفدر
تو صاحبِ اکرام ہے یا حیدرؑ صفدر
تیرا بھی کرم عام یا حیدرؑ صفدر
تنہا ترے اقبال سے شمشیر بکف ہوں
سب ایک طرف جمع ہوں میں ایک طرف ہوں

نا قدریئ عالم کی شکایت نہیں مولا
کچھ دفترِ باطل کی حقیقت نہیں مولا
باہم گل و بلبل میں محبت نہیں مولا
میں کیا ہوں کسی روح کو راحت نہیں مولا
عالم ہے مکدر، کوئی دل صاف نہیں ہے
اس عہد میں سب کچھ ہے پر انصاف نہیں ہے

نیک و بدِ عالم کا تامل نہیں کرتے
عارف کبھی اتنا بھی تجاہل نہیں کرتے
خاروں کے لئے رخ طرفِ گل نہیں کرتے
تعریف خوش الحانی بلبل نہیں کرتے
خاموش ہیں، گو شیشہ دل چور ہوئے ہیں
اشکوں کے ٹپک پڑنے سے مجبور ہوئے ہیں

الماس سے بہتر یہ سمجھتے ہیں خذف کو
در کو تو گھٹاتے ہیں، بڑھاتے ہیں صدف کو
اندھیر یہ ہے چاند بتاتے ہیں کلف کو
کھو دیتے ہیں شیشے کے لئے درِ نجف کو
ضائع ہیں درو لعل بد خشاں و عدن کے
مٹی میں ملاتے ہیں جواہر کو سخن کے

ہے لعل و گہر سے یہ دہن کانِ جواہر
ہنگامِ سخن کھلتی ہے، دکانِ جواہر
ہیں بد مرضع تو ورق خواں جواہر
دیکھے اسے، ہاں ہے کوئی خواہانِ جواہر
بینائے رقومات ہنر چاہئے اس کو
سودا ہے جواہر کا، نظر چاہئے اس کو

کیا ہو گئے وہ جو ہریانِ سخن اک بار
ہر وقت جو اس جنس کے رہتے تھے طلب گار
اب ہے کوئی طالب نہ شناسا نہ خریدار
ہے کون دکھائیں کسے یہ گوہرِ شہوار
کس وقت یہاں چھوڑ کے ملکِ عدم آئے
جب اٹھ گئے بازار سے گاہک تو ہم آئے

خواہاں نہیں یا قوتِ سخن کا کوئی، گو آج
ہے آپ کی سرکا تو یا صاحبِ معراج
اے باعثِ ایجادِ جہاں، خلق کے سرتاج
ہوجائے گا دم بھر میں غنی بندۂ محتاج
امید اسی گھر کی، وسیلہ اسی اسی گھر کا
دولت یہی میری، یہی توشہ ہے سفر کا

میں کیا ہوں مری طبع ہے کیا اے شبہ ساہان
حسان و فرزدق ہیں یہاں عاجز وحیراں
شرمندہ زمانے سے گئے وامل و سحباں
قاصر ہیں سخن فہم و سخن سنج و سخن داں
کیا مدح کفِ خاک سے ہو نور خدا کی
لکنت یہیں کرتی ہیں زبایں فصحا کی

لا یعلم ولا علم کی کیا سحر بیانی
حضرت پہ ہویدا ہے، مری ہیچ مدانی
نہ ذہن میں جودت، نہ طبیعت میں روانی
گویا ہوں، فقط ہے یہ تری فیض رسانی
میں کیا ہوں فرشتوں کی طلاقت ہے تو کیا ہے
وہ خاص یہ بندے ہیں کہ مداح خدا ہے

تھا جوش کچھ ایسا ہی جو دعویٰ کیا میں نے
خود سربہ گریباں ہوں کہ، یہ کیا کیا میں نے
اک قطرۂ نا چیز کو دریا کیا میں نے
تقصیر بحل کیجئے، بے جا کیا میں نے
ہاں سچ ہے کہ اتنی بھی تعلّی نہ روا تھی
مولا یہ کلیجے کے پھپھولوں کی دوا تھی

مجرم ہوں، کبھی ایسی خطا کی نہیں میں نے
بھولے سے بھی آپ اپنی ثنا کی نہیں میں نے
دل سے کبھی مدحِ اُمرا کی نہیں میں نے
تقلید کلامِ جہلا کی نہیں میں نے
نازاں ہوں محبت پہ امامِ ازلی کی
ساری یہ تعلّی ہے حمایت سے علیؑ کی

ہر چند زباں کیا مری اور کیا مری تقریر
دن رات وظیفہ ہے ثنا خوانئ شبیرؑ
منظور ہے اک باب میں دو فصل کی تحریر
مولا کی مدد کا متمنی ہے یہ دل گیر
یہ فصل نئے رنگ سے کاغذ پہ رقم ہو
اک بزم ہو شادی کی تو اک صحبتِ غم ہو

شعباں کی ہے تاریخِ سویم روزِ ولادت
اور ہے دہم ماہِ عزا یوم شہادت
دونوں میں بہر حال ہے تحصیلِ سعادت
وہ بھی عملِ خیر ہے یہ بھی ہے عبادت
مدّاح ہوں کیا کچھ نہیں اس گھر سے ملا ہے
کوثر ہے صلا اس کا بہشت اس کا صلا ہے

مقبول ہوئی غرض، گنہ عفو ہوئے سب
امید بر آئی مرا حاصل ہوا مطلب
شامل ہوا افضالِ محمدؐ کرمِ رب
ہوتے ہیں علم فوجِ مضامیں کے نشاں اب
پستی پہ ہیں سب رکنِ رکیں دینِ متیں کے
ڈنکے سے ہلا دیتا ہوں طبقوں کو زمیں کے

نازاں ہوں عنایت پہ شہنشاہِ زمن کی
بخشی ہے رضا جائزہ فوجِ سخن کی
چہرے کی بحالی سے قبا چست ہے تن کی
لو برطرفی پڑ گئی مضمون کہن کی
اک فرد پرائی نہیں دفتر میں ہمارے
بھرتی ہے نئی فوج کی لشکر میں ہمارے

ہاں اے فلکِ پیر نئے سر سے جواں ہو
اے ماہِ شبِ چار دہم نور فشاں ہو
اے ظلمتِ غم دیدۂ عالم سے نہاں ہو
اے روشنیِ صبح شبِ عید عیاں ہو
شادی ہے ولادت کی یداللہ کے گھر میں
خورشید اترتا ہے شہنشاہ کے گھر میں

اے شمس و قمر، اور قمر ہوتا ہے پیدا
نخلِ چمنِ دیں کا ثمر، ہوا ہے پیدا
مخدومۂ عالم کا پسر، ہوتا ہے پیدا
جو عرش کی ضو ہے، وہ گہر ہوتا ہے پیدا
ہر جسم میں جاں آتی ہے مذکور سے جس کے
نو نورِ خدا ہوں گے عیاں، نور سے جس کے

اے کعبۂ ایماں، تری حرمت کے دن آئے
اے رکنِ یمانی، تری شوکت کے دن آئے
اے بیتِ مقدس، تری عزت کے دن آئے
اے چشمۂ زمزم، تری چاہت کے دن آئے
اے سنگِ حرم، جلوہ نمائی ہوئی تجھ میں
اے کوہِ صفا، اور صفائی ہوئی تجھ میں

اے یثرب و بطحا، ترے والی کی ہے آمد
اے رتبۂ اعلیٰ، شہہ عالی کی ہے آمد
عالم کی تغیری پہ بحالی کی ہے آمد
کہتے ہیں چمن، ماہِ جلالی کی ہے آمد
یہ خانۂ کعبہ کے مباہات کے دن ہیں
یعقوبؑ سے یوسفؑ کی ملاقات کے دن ہیں

اے ارضِ مدینہ، تجھے فوق اب ہے فلک پر
رونق جو سما پر ہے، وہ اب ہوگی سمک پر
خورشید ملا، تیرا ستارہ ہے، چمک پر
صدقے گلِ تر ہے تری پھولوں کی مہک پر
پر جس پہ فرشتوں کے بچھیں فرش وہی ہے
جس خاک پہ ہو نورِ خدا عرش وہی ہے

یا ختمِ رسل گوہرِ مقصود مبارک
یا نورِ خدا رحمتِ معبود مبارک
یا شاہِ نجف شادیِ مولود مبارک
یا خیرالنساؑ ، اخترِ مسعود مبارک
رونق ہو سدا نور دوبالا رہے گھر میں
اس ماہِ دو ہفتہ کا اجالا رہے گھر میں

اے امتیو ہے یہ دم شکر گزاری
ہر بار کرو سجدۂ شکریہِّ باری
اللہ نے حل کردیا مشکل کو تمہاری
فردیں عملِ زشت کی اب چاک ہیں ساری
لکھے گئے بندوں میں ولی ابن ولی کے
ناجی ہوئے صدقے سے حسینؓ ابن علیؓ کے

اے ماہِ معظم ترے اقبال کے صدقے
شوکت کے فدا عظمت و اجلال کے صدقے
اتری برتک، فاطمہ کے لال کے صدقے
جس سال یہ پیدا ہوئے اس سال کے صدقے
قرباں سحر عید آگر ہو تو بجا ہے
نو روز بھی اس شب کی بزرگی پر فدا ہے

قربان شبِ جمعہ، شعبانِ خوش انجام
پیدا ہوا جس شب کو محمدؐ کا گل اندام
قائم ہوا دیں اور بڑھی رونقِ اسلام
ہم پلّۂ صبحِ شبِ معراج تھی وہ شام
خورشید کا اجلال و شرف بدر سے پوچھو
کیا قدر تھی اس شب کی شبِ قدر سے پوچھو

وہ نورِ قمر اور در افشانیئ انجم
تھے جس کے سبب روشنی دیدۂ مردم
وہ چہچہے رضواں کے، وہ حوروں کا تبسم
آپس میں وہ ہنس ہنس کے فرشتوں کا تکلم
میکال شگفتہ ہوئے جاتے تھے خوشی سے
جبریل تو پھولوں نہ سماتے تھے خوشی سے

روشن تھا مدینے ک اہر اک کوچہ و بازار
جو راہ تھی خوشبو، جو محلہ تھا وہ گلزار
کھولے ہوئے تھا آہوئے شب نافۂ تاتار
معلوم یہ ہوتا تھا کہ پھولو کا ہے انبار
گردوں کو بھی اک رشک تھا زینت پہ زمیں کی
ہر گھر میں ہوا آتی تھی فردوس بریں کی

کیا شب تھی وہ سعود و ہمایون و معظم
رخ رحمتِ معبود کا تھ جانبِ عالم
جبریل و سرافیل کو مہلت نہ تھی اک دم
بالائے زمیں آتے تھے اور جاتے تھے باہم
باشندوں کی یثرب کے خبر تھی نہ گھروں کی
سب سنتے تھے آواز فرشتوں کے پروں کی

تھیں فاطمہؓ بے چین ادھر دردِ شکم سے
منہ فق تھا اور آنسو تھے رواں دیدۂ نم سے
وابستہ تھی راحت جو اسی بی بی کے دم سے
مضطر تھے علیؓ بنتِ پیمبرؐ کے الم سے
آرام تھا اک دم نہ شہِ قلعہ شکن کو
پھرتے تھے لگائے ہوئے چھاتی سے حسنؑ کو

کرتے تھے دعا بادشہِ یثرب و بطحا
راحم ہے تری ذاتِ مقدس مرے مولا
زہرا ہے کنیز اور مرا بچہ ترا بندا
آسان کر اے بار خدا مشکل زہرا
نادار ہے اور فاقہ کش و زار و حزیں ہے
مادر بھی تشفی کے لئے پاس نہیں ہے

ناگاہ درِ حجرہ ہوا مطلع انوار
دکھلانے لگے نو تجلی در و دیوار
اسما نے علی سے یہ کہا دوڑ کے اک بار
فرزند مبارک تمہیں یا حیدر کرار
اسپند کرو فاطمہ کے ماہِ جبیں پر
فرزند نہیں چاند یہ اترا ہے زمیں پر

دیکھا نہیں اس طرح کا چہرا کبھی پیارا
نقشہ ہے محمدؐ سے شہنشاہ کا سارا
ماتھے پہ چمکتا ہے جلالت کا ستارا
اللہ نے اس گھر میں عجب چاند اتارا
تصویرِ رسولِ عربیؐ دیکھ رہے ہیں
آنکھوں کی ہے گردش کہ بنی دیکھ رہے ہیں

مژدہ یہ سنا احمدؐ مختار نے جس دم
پس شکر کے سجدے کو گرے قبلۂ عالم
آئے طرفِ خانۂ زہرا خوش و خرم
فرمایا مبارک پسرائے ثانیِ مریم
چہرہ مجھے دکھلادو مرے نورِ نظر کا
ٹکڑا ہے یہ فرزندِ محمدؐ کے جگر کا

کی عرض یہ اسما نے کہ اے خاصۂ داور
نہلا لوں تو لے آؤں اسے حجرے سے باہر
ارشاد کیا احمدِؐ مختار نے ہنس کر
لے آ کہ نواسا ہے مرا طاہر و اطہر
اس چاند کو تاجِ سرِ افلاک کیا ہے
یہ وہ ہے، خدا نے جسے خود پاک کیا ہے

میں اس سے ہوں اور مجھ سے ہے یہ تو نہیں باہر
یہ نورِ الہٰی ہے یہ ہے طیب و طاہر
اسرار جو مخفی ہیں وہ اب ہوئیں گے ظارہ
یہ آیتِ ایماں ہے یہ ہے حجتِ باہِر
بڑھ کر مدد سید لولاک کرے گا
کفار کے قصے کو یہی پاک کرے گا

جس دم یہ خبر مخبر صادق نے سنائی
اسما اسے اک پارچۂ نرم پہ لائی
بو اس گلِ تازہ کی محمدؐ نے جو پائی
ہنسنے لگ، سرخی رخِ پرنور پہ آئی
منہ چاند سا دیکھا جو رسولِؐ عربی نے
لپٹا لیا چھاتی سے نواسے کو نبیؐ نے

جاں اغئی یعقوبؑ نے یوسفؑ کو جو پایا
قرآں کی طرح رحلِ دو زانو پہ بٹھایا
منہ ملنے لگے منہ سے بہت پیار جو آیا
بوسے لئے اور ہاتھوں کو آنکھوں سے لگایا
دل ہل گیا کی جب کہ نظر سینہ و سر پر
چوما جو گلا، چل گئی تلوار جگر پر

جوش آیا تھا رونے کا مگر تھام کے رقت
اس کان میں فرمائی اذاں اس میں اقامت
حیدر سے یہ فرمایا کہ اے شاہِ ولایت
کیوں تم نے بھی دیکھی مرے فرزند کی صورت
پر نور ہے گھر، تو کو ملا ہے قمر ایسا
دنیا میں کسی نے نہیں پایا پسر ایسا؂

کیوں کر نہ ہو تم سا پدر اور فاطمہؓ سی ماں
دو شمس و قمر کا ہے یہ اک نیر تاباں
کی عرض یہ حیدر نے کہ اے قبلۂ ایماں
حق اس پہ رکھے سایۂ پیغمبر ذی شاں
اعلیٰ ہے وہ سب سے جو مقامِ شہ دیں ہے
بندہ ہوں میں اور یہ بھی غلامِ شہ دیں ہے

عالم میں ہے یہ سب برکت آپ کے دم سے
سرسبزی دنیا ہے اسی ابر کرم سے
تا عرش پہونچ جاتا ہے سر فیضِ قدم سے
عزت ہے غلاموں کی شہنشاہ امم سے
کچھ اس میں نہ زہرا کا ہے باعث نہ علی کا
سب ہے یہ بزرگی کہ نواسا ہے نبی کا

فرمانے لگے ہنس کے شہِ یثرب و بطحا
بھائی کہو فرزند کا کچھ نام بھی رکھا
کی عرض یہ حیدر نے کہ اے سید والا
سبقت کروں میں حضرت پہ، یہ مقدور ہے میرا
فرمایا کہ موقوف ہے یہ ربِّ عُلا پر
میں بھی سبقت کر نہیں سکتا ہوں خدا پر

بس اتنے میں نازل ہوئے جبریل خوش انجام
کی عرض کہ فرماتا ہے یہ خالقِ علام
پیارا ہے نہایت ہمیں زہرا کا گل اندام
یا ختمِ رسل ہم نے ’’حسین‘‘ اس کا رکھا نام
یہ حسن میں سردار حسینانِ زمن ہے
مشتق ہے تو احسان سے تصغیر حسن ہے

ح سے یہ اشارہ کہ یہ ہے حامیِ امت
سمجھیں گے اسی سین کو سب سینِ سعادت
یَ اس کی بزرگی میں یٰسین کی آیت
ہے نون سے ظاہر کہ یہ ہے نورِ نبوت
ناجی ہے وہ اس نام کو لے
یہ حسن میں دس حصے زیادہ ہے حسن سے

دو نور کے دریا کو جو ہم نے کیا اک جا
تب اس سے ہوا گوہرِ نایاب یہ پیدا
توقیر میں بے مثل، شجاعت میں ہے یکتا
اب اور نہ ہو گا کوئی اس حسن کا لڑکا
ہم جانتے ہیں جو نہیں ظاہر ہے کسی پر
کام اس سے جو لینا ہے وہ ہے ختم اسی پر

فیاض نے کونین کی دولت اسے دی ہے
دی ہے جو علیؓ کو وہ شجاعت اسے دی ہے
صبر اس کو عنایت کیا، عزت اسے دی ہے
ان سب کے سوا اپنی محبت اسے دی ہے
اعلیٰ ہے، معظم ہے، مکرم ہے، ولی ہے
ہادی ہے، وفادار ہے، زاہد ہے سخی ہے

جب کر چکے ذکرِ کرم مالکِ تقدیر
جبریلؑ نے پاس آن کے دیکھا رخِ شپیرؐ
کی صلِّ علیٰ کہہ کے محمدؐ سے یہ تقریر
یا شاہ، یہ مہرو تو ہے صاف آپ کی تصویر
جب کہ ہے زیارت پئے تسلیم جھکے ہیں
اس نور کو ہم عرش پہ بھی دیکھ چکے ہیں

ہے اس پہ ازل سے نظرِ رحمتِ معبود
یہ پیشتر آدم سے بھی تھا عرش پہ موجود
ہے ذاتِ خدا صاحبِ فیض و کرم وجود
تھا خلق دو عالم سے یہی مطلب و مقصود
مظلومی و غربت ہے عجب نام پہ اس کے
سب روتے ہیں اور روئیں گے انجام پہ اس کے

یہ ہے سبب تہنیت و تعزیت اس دم
ہے شادی و غم گلشن ایجاد میں توام
لپٹائے ہیں چھاتی سے جسے قبلۂ عالم
بے جرم و خطا ذبح کریں گے اسے اظلم
گر حشر بھی ہوگا تو یہ آفت نہ ٹلے گی
سجدے میں چھری حلقِ مبارک پہ چلے گی

ہوگا یہ محرم میں ستم اے شہہ ذی جاہ
چھپ جائے گا آنکھوں سے اسی چاند میں یہ ماہ
تاریخ دہم جمعہ کے دن عصر کے وقت آہ
نیزے پہ چڑھائیں گے سرِ پاک کو گمراہ
کٹ جائے جب سر تو ستم لاش پہ ہوں گے
گھوڑوں کے قدم سینۂ صد پاش پہ ہوں گے

چلائے محمد کہ میں بسمل ہوا بھائی
اے وائے اخی کیا یہ خبر مجھ کو سنائی
دل ہل گیا برچھی سی کلیجے میں در آئی
یہ واقعہ سن کر نہ جئے گی مری جائی
ممکن نہیں دنیا میں دوا زخمِ جگر کی
کیوں کر کہوں زہرا سے خبر مرگِ پسر کی

جس وقت سنی فاطمہؓ نے یہ خبرِ غم
شادی میں دلادت کی بپا ہوگیا ماتم
چلاتی تھی سرپیٹ کے وہ ثانیِ مریم
بیٹی پہ چھری چل گئی یا سیدِ عالم
خنجر کے تلے چاندسی تصویر کی گردن
کٹ جائے گی ہے ہے مرے شپیر کی گردن

ہے ہے کئی دن تک نہ ملے گا اسے پانی
ہے ہے یہ سہے گا تعبِ تشنہ دہانی
ہو جائیں گے اِک جان کے سب دشمنِ جانی
ہے ہے مرا محبوب، مرا یوسفِ ثانی
پیراہنِ صد چاک کفن ہووے گا اس کا
سر نیزہ پہ اور خاک پہ تن ہوے گا اس کا

صبر اپنا دکھانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں
یوں خلق سے جانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں
جنگل کے بسانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں
اماں کے رلانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں
ہم چاند سی صورت پہ نہ شیدا ہوئے ہوتے
اے کاش مرے گھر میں نہ پیدا ہوئے ہوتے

دنیا مجھے اندھیر ہے اس غم کی خبر سے
شعلوں کی طرح آہ نکلتی ہے جگر سے
دامن پہ ٹپکتا ہے لہو دیدۂ تر سے
بس آج سفر کر گئی شادی مرے گھر سے
جس وقت تلک جیتی ہوں ماتم میں رہوں گی
مظلوم حسینؓ آج سے اس کو میں کہوں گی

بیٹی کو یہ معلوم نہ تھا یا شہِ عالم
بچھے گی زچہ خانے کے اندر صفِ ماتم
اب دن ہے چھٹی کا مجھے عاشورِ محرم
تارے بھی نہ دیکھے تھے کہ ٹوٹا فلک غم
پوشاک نہ بدلوں گی نہ سر دھوؤں گی بابا
چلے میں بھی چہلم کی طرح روؤں کی بابا

حیدر ہے کہاں آ کے دلاسا نہیں دیتے
زہراؓ کا برا حال ہے سمجھا نہیں دیتے
اس زخم کا مرہم مجھے بتلا نہیں دیتے
ہے ہے مجھے فرزند کا پرسا نہیں دیتے
حجرے میں الگ بیٹھے ہیں کیوں چھوڑ کے گھر کو
آواز تو سنتی ہوں کہ روتے ہیں پس کو

پھر دیکھ کے فرزند کی صورت یہ پکاری
اے میرے شہید اے مرے بیکس ترے واری
ہاں بعد مرے ذبح کریں گے تجھے ناری
بنتی ہوں ابھی سے میں عزادار تمہاری
دل اور کسی شغل میں مصروف نہ ہو گا
بس آج سے رونا مرا موقوف نہ ہو گا

مرجائیگا تو تشنہ دہن ہائے حسینا
ہو جائے گا ٹکڑے یہ بدن ہاے حسینا
اک جان پپہ یہ رنج و محن ہائے حسینا
کوئی تجھے دے گا نہ کفن ہائے حسینا
گاڑیں گے نہ ظالم تنِ صد پاش کو ہے ہے
رہواروں سے روندیں گے تری لاش کو ہے ہے

فرمایا محمدؐ نے کہ اے فاطمہؓ زہرا
کیا مرضیِ معبود سے بندے کا ہے چارہ
خالق نے دیا ہے اسے تہ رتبۂ اعلیٰ
جبریل سوا کوئی نہیں جاننے والا
میں بھی ہوں فدا اس پہ کہ یہ فدیۂ رب ہے
یہ لال ترا بخشش امت کا سبب ہے

اس بات کا غم ہے اگر اے جانِ پیمبرؐ
بے دفن و کفن رن میں رہے گا ترا دلبر
جب قید سے ہووے گا رہا عابدِ مظطر
تگربت میں اسے دفن کرے گا وہی آ کر
ارواحِ رسولانِ زمن روئیں گی اس کو
سر پیٹ کے زینب سی بہن روئیں گی اس کو

جب چرخ پہ ہوئے گا عیاں ماہِ محرم
ہر گھر میں بپا ہوے گی اک مجلسِ ماتم
آئیں گے ملک عرش سے داں رونے کو باہم
ماتم یہ وہ ماتم ہے کہ ہوگا نہ کبھی کم
پر نور سدا اس کا عزا خانہ رہے گا
خورشید جہاں گرد بھی پروانہ رہے گا

کیا اوج ہے، کیا رتبہ ہے اس بزمِ عزا کا
غل عرش سے ہے فرش تلک صلِّ علیٰ کا
مشتاق ہے فردوزِ بریں یاں کی فضا کا
پانی میں بھی ہے یاں کی مزا آبِ بقا کا
دربارِ معلّیٰ ہے ولی ابنِ ولی کا
جاری ہے یہ سب فیض حسینؓ ابن علی کا

لوریاں سے بس اب مجلسِ ماتم کا بیاں ہے
وہ فصل خوشی ختم ہوئی غم کا بیاں ہے
مظلومیِ سلطانِ دو عالم کا بیاں ہے
ہنگامۂ عاشورِ محرم کا بیاں ہے
ہاں دیکھ لے مشتاق جو ہو فوجِ خدا کا
لوبزم میں کھلتا ہے مرقع شہدا کا

اے خضرِ بیابانِ سخن راہبری کر
اے نیرِ تابانِ خرد جلوہ گری کر
اے درد عطا لذتِ زخمِ جگری کر
اے خوفِ الٰہی مجھے عصیان سے بری کر
بندوں میں لکھا جاؤں امامِ ازلی کے
آزاد ہوں صدقے میں حسینؓ ابن علیؓ کے

قدسی کو نہیں بار، یہ دربار ہے کس کا
فردوس کو ہے رشک یہ گلزار ہے کس کا
سب جنسِ شفاعت ہے، یہ بازار ہے کس کا
خود بکتا ہے یوسفؑ یہ خریدار ہے کس کا
ملتی ہے کہاں مفت متاعِ حسن ایسی
دیکھی نہیں انجم نے کبھی انجمن ایسی

مجلس کا زہے نور خوشا محفلِ عالی
حیدر کے محبوں سے کوئی جا نہیں خالی
عاشق ہیں سب اس کے جو ہے کونین کا والی
اثنا عشری، پنجتنی، شیعۂ غالی
ششدر نہ ہو کیوں چرخ عجب جلوہ گری ہے
یہ بزمِ عزا آج ستاروں سے بھری ہے

ان میں جو مسن ہیں وہ پیمبر کے ہیں مہماں
اور جو متوسط ہیں، وہ حیدر کے ہیں مہماں
جو تازہ جواں ہیں، علی اکبر کے ہیں مہماں
شیعوں کے پسر سب علی اصغر کے ہیں مہماں
ہر خورد و کلاں عاشقِ شاہِ مدنی ہیں
پانچ انگلیوں کی طرح یہ سب پنجتنی ہیں

ارشادِ نبیؐ ہے کہ مددگار ہیں میرے
فرماتے ہیں حیدر کہ یہ غم خوار ہیں میرے
حضرت کا سخن ہے کہ عزادار ہیں میرے
میں ان کا ہوں طالب یہ طلب گار ہیں میرے
یہ آج اگر رو کے ہمیں یاد کریں گے
ہم قبر میں ان لوگوں کی امداد کریں گے

غم میں مرے بچوں کے یہ سب کرتے ہیں فریاد
اللہ سلامت رکھے ان لوگوں کی اولاد
بستی مرے شیعوں کی رہے خلق میں آباد
یہ حشر کے دن آتشِ دوزخ سے ہوں آزاد
مرتا ہے کوئی گر تو بکا کرتا ہوں میں بھی
ان کے لئے بخشش کی دعا کرتا ہوں میں بھی

مردم کے لئے واجب عینی ہے یہ زاری
رونا ہی وسیلہ ہے شفاعت کا ہماری
ہے وقتِ معین پہ ادا طاعتِ باری
یہ خیر ہے وہ خیر جو ہر وقت ہے جاری
رو لو کہ یہ وقت اور یہ صحبت نہ ملے گی
جب آنکھ ہوئی بند تو مہلت نہ ملے گی

مہلت جو اجل دے تو غنیمت اسے جانو
آمادہ ہو رونے پہ، سعادت اسے جانو
آنسو نکل آئیں تو عبادت اسے جانو
ایذا ہو جو محفل میں تو راحت اسے جانو
فاقے کئے ہیں دھوپ میں لب تشنہ رہے ہیں
آقا نے تمہارے لئے کیا ظم سہے ہیں

تکلیف کچھ ایسی نہیں سایہ ہے ہوا ہے
پانی ہے خنک مروحہِ کش بادِ صبا ہے
کچھ گرمیِ عاشورہ کا بھی حال سنا ہے
سر پیٹنے کا وقت ہے ہنگامِ بکا ہے
گذری ہے بیابان میں وہ گرمی شہِ دیں پر
بھن جاتا تھا دانہ بھی جو گرتا تھا زمیں پر

لوں چلتی تھی ایسی کہ جلے جاتے تھے اشجار
تھا عنصرِ خاکی پہ گمانِ کرۂ نار
پانی پہ دو دوام گرے پڑتے تھے ہر بار
سب خلق تو سیراب تھی پیاسے شہِ ابرار
خاک اڑ کے جمی جانی تھی زلفوں پہ قبا پر
اس دھوپ میں سایہ بیھ نہ تھا نورِ خدا پر

قطرے جو پسینے کے ٹپک پڑتے تھے ہر بار
ثابت یہی ہوتا تھا کہ ہیں اخترِ سیار
شاہد المِ فاقہ سے ہے زردیِ رخسار
بے آبی سے اودے تھے لبِ لعل گہر بار
رنیا میں ترستے رہے وہ آب رواں کو
جن ہونٹوں نے چوما تھا محمدؐ کی زباں کو

دنیا بھی عجب گھر ہے کہ راحت نہیں جس میں
وہ گل ہے یہ گل بوئے محبت نہیں جس میں
وہ دوست ہے یہ دوستِ مروت نہیں جس میں
وہ شہد ہے یہ شہد حلاوت نہیں جس میں
بے درد و الم شامِ غریباں نہیں گزری
دنیا میں کسی کی کبھی یکساں نہیں گزری

گودی ہے کبھی ماں کی کبھی قبر کا آغوش
کل پیرہن اکثر نظر آتے ہیں کفن پوش
سرگرمِ سخن ہے کبھی انساں کبھی خاموش
گہہ تخ ہے اور گاہ جنازہ بسرِ دوش
اک طور پہ دیکھا نہ جواں کو نہ مسن کو
شب کو تو چھپر کھٹ میں ہیں تابوت مین دن کو

شادی ہو کہ اندوہ ہو آرام ہو یا جور
دنیا میں گزر جاتی ہے انساں کو بہر طور
ماتم کی کبھی فصل ہے، عشرت کا کبھی دور
ہے شادی و ماتم کا مرقع جو کرو غور
کس باغ پہ آسیبِ خزاں آ نہیں جاتا
گل کون سا کھلتا ہے جو مرجھا نہیں جاتا

ہے عالمِ فانی کی عجب صبح عجب شام
گہہ غم کبھی شادی کبھی ایذا کبھی آرام
نازوں سے پلا فاطمہ زہراؓ کا گل اندام
وا حسرت و دردا کہ وہ آغاز یہ انجام
راحت نہ ملی گھر کے تلاطم سے دہم تک
مظلوم نے فاقے کئے ہفتم سے دہم تک

ریتی یہ عزیزوں کا مرقع تو ہے ابتر
شہ کا ہے یہ نقشہ کہ میں تصویر سے ششدر
فرزند نہ ملسم کے نہ ہمشیر کے دلبر
قاسم ہیں نہ عباس نہ اکبر ہیں نہ اصغر
سب نذر کو دربار پیمبر میں گئے ہیں
رخصت کو اکیلے شہہ دیں گھر میں گئے ہیں

منظور ہے پھر دیکھ لیں ہمشیر کی صورت
پھر لے گئی ہے گھر میں سکینہ کی محبت
سجاد سے کچھ کہتے ہیں اسرار امامت
بانووے دو عالم سے بھی ہے آخری رخصت
مطلوب ہے یہ زیبِ بدن رختِ کہن ہو
تا بعد شہادت وہی ملبوسِ کفن ہو

خیمے میں مسافر کا وہ آنا تھا قیامت
ایک ایک کو چھاتی سے لگانا تھا قیامت
آنا تو غنیمت تھا یہ جانا تھا قیامت
تھوڑا سا وہ رخصت کا زمانہ تھا قیامت
واں بین ادھر صبر و شکیبائی کی باتیں
افسانۂ ماتم تھیں بہن بھائی کی باتیں

حضرت کا وہ کہنا کہ بہن صبر کرو صبر
امت کے لئے والدہ صاحب نے سہے جبر
وہ کہتی تھی کیوں کر نہ میں روؤں صفتِ ابر
تم پہنو کفن اور نہ بنے ہائے مری قبر
لٹتے ہوئے اماں کا گھر ان آنکھوں سے دیکھوں
ہے ہے تہِ خنجر تمہیں کن آنکھوں سے دیکھوں

اس عمر میں تھوڑے غمِ جانکاہ اٹھائے
اشک آنکھوں سے اماں کے جنازے پہ بہائے
آنسو نہ تھمے تھے کہ پدر خوں میں نہائے
ٹکڑے دلِ شبیر کے لگن میں نظر آئے
حضرت کے سوا اب کوئی سر پر نہیں بھائی
انساں ہوں کلیجہ مرا پتھر نہیں بھائی

ہر شخص کو ہے یوں تو سفر خلق سے کرنا
دشوار ہے اک آن مسافر کا ٹھہرنا
ان آنکھوں سے دیکھا ہے بزرگوں کا گزرنا
ہے سب سے سوا ہائے یہ مظلومی کا مرنا
صدقے گئی یوں رن کبھی پڑتے نہیں دیکھا
اک دن میں بھرے گھر کو اجڑتے نہیں دیکھا

ہے ہے تمہیں لے کے میں کہاں چھپ رہوں بھائی
لٹتی ہے مرے چار بزرگوں کی کمائی
کس دشتِ پر آشوب میں قسمت مجھے لائی
یارب کہیں مر جائے ید اللہ کی جائی
زہراؓ کا پسر وقتِ جدائی مجھے روئے
سب کو تو میں روئی ہوں یہ بھائی مجھے روئے

زینب کی وہ زاری وہ سکینہ کا بلکنا
وہ ننھی سی چھاتی میں کلیجے کا دھڑکنا
وہ چاند سا منہ اور وہ بندے کا چمکنا
حضرت کا وہ بیٹی کی طرف یاس سے تکنا
حسرت سے یہ ظاہر تھا کہ معذور ہیں بی بی
پیدا تھا نگاہوں سے کہ مجبور ہیں بی بی

وہ کہتی تھی بابا ہمیں چھاتی سے لگاؤ
فرماتے تھے شہ آؤ نہ جانِ پدر آؤ
ہم کڑھتے ہیں لو آنکھوں سے آنسو نہ بہاؤ
خوشبو تو ذرا گیسوئے مشکیں کو سنگھاؤ
کوثر یہ ہے، تم بن نہیں آرام چچا کو
ہم جاتے ہیں کچھ دیتی ہو پیغام چچا کو

بی بی کہو کیا حال ہے اب ماں کا تمہاری
کس گوشے میں بیٹھی ہیں کہاں کرتی ہیں زاری
جب سے سوئے جنت گئی اکبر کی سواری
دیکھا نہ انہیں گھر میں ہم آئے کئی باری
تھی سب کی محبت انہیں بیٹے ہی کے دم تک
کیا آخری رخصت کو بھی آئیں گی نہ ہم تک

کس جا ہیں طلب ہم کو کریں یا وہی آئیں
ممکن نہیں اب وہ ہمیں یا ہم انہیں پائیں
کچھ ہم سے سنیں کچھ ہمیں حال اپنا بتائیں
اک دم کے مسافر ہیں ہمیں دیکھ تو جائیں
بعد اپنے یہ لوٹا ہوا گھر اور کٹے گا
افسوس کہ اک عمر کا ساتھ آج چھٹے گا

غش میں جو سنی بانوئے مضطر نے یہ تقریر
ثابت ہو مرنے کو چلے حضرت شبیر
سر ننگے اٹھی چھوڑ کے گہوارۂ بے شیر
چلائی مجھے ہوش نہ تھا یا شہِ دل گیر
جاں تن سے کوئی آن میں اب جاتی ہے آقا
یہ خادمہ رخصت کے لئے آتی ہے آقا

یہ سن کے بڑھے چند قدم شاہِ خوش اقبال
قدموں پہ گری دوڑ کے وہ کھولے ہوئے بال
تھا قبلۂ عالم کا بھی اس وقت عجب حال
روتے تھے غضب آنکھوں پہ رکھے ہوئے رومال
فرماتے تھے جانکاہ جدائی کا الم ہے
اٹھو تمہیں روحِ علی اکبر کی قسم ہے

وہ کہتی تھی کیوں کر میں اٹھوں اے مری سرتاج
والی انہیں قدموں کی بدولت ہے مرا راج
سر پر جو نہ ہوگا پسرِ صاحبِ معراج
چادر کے لئے خلق میں جاؤں گی محتاج
چھوٹے جو قدم مرتبہ گھٹ جائے گا میرا
قربان گئی تخت الٹ جائے گا میرا

یاں آئی میں جب خانۂ کسریٰ ہوا برباد
وہ پہلی اسیری کی اذیت ہے مجھے یاد
کی عقدہ کشائے دو جہاں نے مری امداد
حضرت کے تصدق میں ہوئی قید سے آزاد
لونڈی تھی، بہو ہو گئی زہراؓ و علیؓ کی
قسمت نے بٹھایا مجھے مسند پہ نبیؐ کی

چھبیس برس تک نہ چھٹا آپ کا پہلو
اب ہجر ہے تقدیر میں یا سید خوش خو
شب بھر رہے تکیہ سرِ اقدس کا جو بازو
ہے ہے اسے اب رسی سے باندھیں گے جفا جو
سر پر نہ ردا ہوگی تو مر جاؤں گی صاحب
چھپنے کو میں جنگل میں کدھر جاؤں گی صاحب

حضرت نے کہا کس کا سدا ساتھ رہا ہے
ہر عاشق و معشوق نے یہ داغ سہا ہے
دارِ محن اس دار کو داور نے کہا ہے
ہر چشم سے خونِ جگر اس غم میں بہا ہے
فرقت میں عجب حال تھا خالق کے ولی کا
ساتھ آٹھ برس تک رہا زہراؓ و علیؓ کا

سو سو برس اس گھر میں محبت سے رہے جو
اس موت نے دم بھر میں جدا کر دیا ان کو
کچھ مرگ سے چارہ نہیں اے بانوئے خوش خو
ہے شاق فلک کو کہ رہیں ایک جگہ دو
کس کس پہ زمانے نے جفا کی نہیں صاحب
اچھوں سے کبھی اس نے وفا کی نہیں صاحب

لازم ہے خدا سے طلبِ خیر بشر کو
تھامے گا تباہی میں وہی رانڈ کے گھر کو
آنا ہے تمہیں بھی وہیں جاتے ہیں جدھر کو
وارث کی جدائی میں پٹکتے نہیں سر کو
کھولے گا وہی رسی بندھے ہاتھ تمہارے
سجاد سا بیٹا ہے جواں ساتھ تمہارے

زینب کو تو دیکھو کہ ہیں کس دکھ میں گرفتار
ایسا کوئی اس گھر میں نہیں بے کس و ناچار
تنہا ہیں کہ بے جاں ہوے دو چاند سے دلدار
دنیا سے گیا اکبرِ ناشاد ساغم خوار
بیٹے بھی نہیں گود کاپالا بھی نہیں ہے
ان کو تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے

یہ کہہ کے کچھ آہستہ کہا گوشِ پسر میں
بیمار کے رونے سے قیامت ہو گئی گھر میں
اندھیر زمانہ ہوا بانو کی نظر میں
غش ہو گئی زینبؓ یہ اتھا درد جگر میں
ٹھہر نہ گیا واں، شہِ والا نکل آئے
تنہا گئے روتے ہوئے تنہا نکل آئے

کچھ پڑھ کے پھرے جانبِ قبلہ شہہ بے پر
کج کی طرفِ دوشِ یمیں گردنِ انور
تھراتے ہوئے ہاتھوں پہ عمامے کو رکھ کر
کی حق سے مناجات کہ اے خالقِ اکبر
حرمت ترے محبوب کی دنیا میں بڑی ہے
کر رحم کہ آل ان کی تباہی میں پڑی ہے

یارب یہ ہے سادات کا گھر تیرے حوالے
رانڈیں ہیں کئی کستہ جگر تیرے حوالے
بیکس کا ہے بیمار پسر تیرے حوالے
سب ہیں ترے دریا کے گہر تیرے حوالے
عالم ہے غربت میں گرفتاری بلا ہوں
میں تیری حمایت میں انہیں چھوڑ چلا ہوں

میرے نہیں، بندے ہیں ترے اے مرے خالق
بستی ہو کہ جنگل توہی حافظ تو ہی رازق
باندھے ہیں کمر ظلم و تعدی پہ منافق
نے دوست ہے دنیا، نہ زمانہ ہے موافق
حرمت ہے ترے ہاتھ امامِ ازلی کی
دو بیٹیاں، دو بہوئیں ہیں اس گھر میں علی کی

میں یہ نہیں کہتا کہ اذیت نہ اٹھائیں
یا اہلِ ستم آگ سے خیمے نہ جلائیں
ناموس لٹیں قید ہوں اور شام میں جائیں
مہلت مرے لاشے پہ بھی رونے کی نہ پائیں
بیڑی میں قدم طوق میں عابد کا گلا ہو
جس میں ترے محبوب کی امت کا بھلا ہو

یہ کہہ کے گریبانِ مبارک کو کیا چاک
اور ڈال لی پیراہن پر نور پہ کچھ خاک
میت ہونے شبیر کفن بن گئی پوشاک
بس فاتحۂ خیر پڑھا بادلِ غم ناک
مڑکر نہ کسی دوست نہ غم خوار کو دیکھا
پاس آئے تو روتے ہوئے رہوار کو دیکھا

گردان کے دامن علی اکبر کو پکارے
تھامو مرے گھوڑے کا رکاب اے مرے پیارے
لختِ دلِ شبیر کدھر اس وقت سدھارے
بھائی ہیں کہاں ہاتھ میں دیں ہاتھ ہمارے
آتے نہیں مسلم کے جگر بند کہاں ہیں
دونوں مری ہمشیر کے فرزند کہاں ہیں

تنہائی میں اک ایک کو حضرت نے پکارا
کون آئے کہ فردو میں تھا قافلہ سارا
گھوڑے پہ چھڑا خود اسد اللہ کا پیارا
اونچا ہوا افلاکِ امامت کا ستارا
شوخی سے فرس پاؤں نہ رکھتا تھا زمیں پر
غل تھا کہ چلا قطبِ زماں عرشِ بریں پر

شبدیز نے چھل بل میں عجب ناز دکھایا
ہر گام پہ طاؤس کا انداز دکھایا
زیور نے عجب حسنِ خداداد دکھایا
فتراک نے اوجِ پرِ پرواز دکھایا
تھا خاک پہ اک پاؤں تو اک عرشِ بریں پر
غل تھا کہ پھر اترا ہے براق آج زمیں پر

اعداد کی زبانوں پر یہ حیرت کی تھی تقریر
حضرت یہ رجز پڑھتے تھے تولے ہوئے شمشیر
دیکھوں نہ مٹاؤ مجھے اے فرقۂ بے پیر
میں یوسفِ کنعانِ رسالت کی ہوں تصویر
واللہ تعلّی نہیں یہ کلمۂ حق ہے
عالم کے مرقعے میں حسین ایک ورق ہے

واللہ جہاں میں مرا ہمسر نہیں کوئی
محتاج ہوں پر مجھ سا توانگر نہیں کوئی
ہاں میرے سوا شافعِ محشر نہیں کوئی
یوں سب ہیں مگر سبطِ پیمبر نہیں کوئی
باطل ہے اگر دعویٰ اعجاز کرے گا
کس بات پہ دنیا میں کوئی ناز کرے گا

ہم وہ ہیں کہ اللہ نے کوثر ہمیں بخشا
سرداریِ فردوس کا افسر ہمیں بخشا
اقبالِ علی خلق پیمبر ہمیں بخشا
قدرت ہمیں دی، زور ہمیں، زر ہمیں بخشا
ہم نور ہیں گھر طورِ تجلا ہے ہمارا
تختِ بنِ داؤد مصلا ہے ہمارا

نانا وہ کہ ہیں جن کے قدم عرش کے سرتاج
قوسینِ مکان، ختمِ رسل، صاحبِ معراج
ماں ایسی کہ سب جس کی شفاعت کے ہیں محتاج
باپ ایسا صنم خانوں کو جس نے کیا تاراج
لڑنے کو اگر حیدر صفدر نہ نکلتے
بت گھر سے خدا کے کبھی باہر نہ نکلتے

کس جنگ میں سینے کو سپر کر کے نہ آئے
کس مرحلۂ صعف کو سر کر کے نہ آئے
کس فوج کی صف زیر و زبر کر کے نہ آئے
تھی کون سی شب جس کو سحر کر کے نہ آئے
تھا کون جو ایماں تہِ صمصام نہ لایا
اس شخص کا سر لائے جو اسلام نہ لایا

اصنام نہ کچھ کم تھے، نہ کفار تھے تھوڑے
طاقت تھی کہ عزیٰ کو کوئی لات سے توڑے
بد کیشوں نے سجدے بھی کئے ہاتھ بھی جوڑے
بے توڑے وہ بت حیدر صفدر نے نہ چھوڑے
کعبے کو صفا کردیا خالق کے کرم سے
نکلے اسد اللہ اذاں دے کے حرم سے

اس عہد میں مالک اسی تلوار کے ہم ہیں
جرار پسر، حیدر کرار کے ہم ہیں
فرزند محمدؐ سے جہاں دار کے ہم ہیں
وارثِ شہِ لولاک کی سرکار کے ہم ہیں
کچھ غیر کفن ساتھ نہیں لے کے گئے ہیں
تابوت سکینہ بھی ہمیں دے کے گئے ہیں

یہ فرق یہ عمامۂ سردارِ زمن ہے
یہ تیغِ علی ہے یہ کمر بندِ حسن ہے
یہ جوشنِ داؤد ہے جو حافظ تن ہے
یہ پیراہنِ یوسفِ کنعانِ محن ہے
دکھلائیں سند دستِ رسول عربیؐ کی
یہ مہر سلیماں ہے، یہ خاتم ہے نبی کی

دیکھو تو یہ ہے کون سے جرار کی تلوار
کس شیر کے قبضے میں ہے کرار کی تلوار
دریا نے بھی دیکھی نہیں اس دھار کی تلوار
بجلی کی تو بجلی ہے یہ، تلوار کی تلوار
قہر و غضب اللہ کا ہے کاٹ نہیں ہے
کہتے ہیں اسے موت کا گھر گھاٹ نہیں ہے

دم لے کہیں رک کر وہ روانی نہیں اس میں
چلنے میں سبک تر ہے، گرانی نہیں اس میں
جز حرفِ ظفر اور نشانی نہیں اس میں
جل جاؤ گے سب آگ ہے پانی نہیں اس میں
چھوڑے گی نہ زندہ اسے جو دشمن دیں ہے
نابیں نہیں، غصے سے اجل چیں بہ جبیں ہے

سب قطرے ہیں گر فیض کے دریا ہیں تو ہم ہیں
ہر نقطۂ قرآں کے شناسا ہیں تو ہم ہیں
حق جس کا ہے جامع وہ ذخیرہ ہیں تو ہم ہیں
افضل ہیں تو ہم، عالم و دانا ہیں تو ہم ہیں
تعلیم ملک عرش پہ تھا ورد ہمارا
جبریل سا استاد ہے شاگرد ہمارا

گر فیض ظہورِ شہِ لولاک نہ ہوتا
بالائے زمیں گنبدِ افلاک نہ ہوتا
کچھ خاک کے طبقے میں، بجز خاک نہ ہوتا
ہم پاک نہ کرتے تو جہاں پاک نہ ہوتا
یہ شور اذاں کا سحر و شام کہاں تھا
ہم عرش پہ جب تھے تو یہ اسلام کہاں تھا

محسن سے بدی ہے یہی احساں کا عوض واہ
دشمن کے ہوا خواہ ہوئے دوست کے بد خواہ
گمراہ کے بہکانے سے روکو نہ مری راہ
لو اب بھی مسافر کو نکل جانے دو لِلّٰلہ
مل جائے گی اک دم میں اماں رنج و بلا سے
میں ذبح سے بچ جاؤں گا، تم قہر خدا سے

بستی میں کہیں مسکن و ماوا نہ کروں گا
یثرب میں بھی جانے کا ارادہ نہ کروں گا
صابر ہوں کسی کا کبھی شکوا نہ کروں گا
اس ظلم کا میں ذکر بھی اصلا نہ کروں گا
رونا نہ چھٹے گا کہ عزیزوں سے چھپا ہوں
جو پوچھے گا کہہ دوں گا کہ جنگل میں لٹا ہوں

اعدا نے کہا قہرِ خدا سے نہیں ڈرتے
ناری تو ہیں دوزخ کی جفا سے نہیں ڈرتے
فریاد رسولِؐ دوسرا سے نہیں ڈرتے
خاتونِ قیامت کی بکا سے نہیں ڈرتے
ہم لوگ جدھر دولتِ دنیا ہے ادھر ہیں
اللہ سے کچھ کام نہیں بندۂ زر ہیں

حضرت نے کہا خیر خبردار صفوں سے
آیا غضب اللہ کا ہشیار صفوں سے
بجلی سا گزر جاؤں گا ہر بار صفوں سے
کب پنجتنی رکتے ہیں دو چار صفوں سے
عربت کے چلن دیکھ چکے، حرب کو دیکھو
لو بندۂ زر ہو، تو مری ضرب کو دیکھو

یاں گوشۂ عزلت، خمِ شمشیر نے چھوڑا
واں سہم کے چلے کو ہر ایک تیر نے چھوڑا
کس قہر سے گھر موت کی تصویر نے چھوڑا
ساحل کو صفِ لشکرِ بے پیر نے چھوڑا
عنقائے ظفر فتح کا در کھول کے نکلا
شہباز اجل، صید کو، پر تول کے نکلا

جلوہ کیا بدلی سے نکل کر مہِ نونے
دکھلائے ہوا میں دوسر، اک شمع کی لو نے
تڑپا دیا بجلی کو فرس کی تگ و دَو نے
تاکاسپر مہر کو شمشیر کی ضو نے
اعدا تو چھپانے لگے ڈھالوں پہ سروں کو
جبریل نے اونچا کیا گھبرا کے پروں کو

بالا سے جو آئی وہ بلا جانبِ پستی
بس نیست ہوئی دم میں ستم گاروں کی بستی
چلنے لگی یک دست جو شمشیر دو دستی
معلوم ہوا لٹ گئی سب کفر کی بستی
زور ان کے ہر اک ضرب میں اللہ نے توڑے
ٹوٹیں جو صفیں بت اسد اللہ نے توڑے

بجلی سی جو گِر کر صفِ کفار سے نکلی
آواز بزن تیغ کی جھنکار سے نکلی
گہہ ڈھال میں ڈوبی کبھی تلوار سے نکلی
در آئی جو پیکاں میں تو سو فار سے نکلی
تھے بند خطا کاروں پہ دا امن و اماں کے
چلے بھی چھپے جاتے تھے گوشوں میں کماں کے

افلاک پہ چمکی کبھی، سر پر کبھی آئی
کوندی کبھی جوشن پی، سپر پر کبھی آئی
گہہ پڑھ گئی سینہ پہ، جگر پر کبھی آئی
تڑپی کبھی پہلو پہ، کبھی کمر پر کبھی آئی
طے کر کے پھر کون سا قصہ تھا فرس کا
باقی تھا جو کچھ کاٹ، وہ حصہ تھا فرس کا

بے پاؤں جدھر ہاتھ سے چلتی ہوئی آئی
ندی ادھر اک خوں کی ابلتی ہوئی آئی
دم بھر میں سو سورنگ بدلتی ہوئی آئی
پی پی کے لہو لعل اگلتی ہوئی آئی
ہیرا تھا بدن، رنگ زمرد سے ہرا تھا
جوہر نہ کہو پیٹ جواہر سے بھرا تھا

زیبا تھا دمِ جنگ پر ی وش اسے کہنا
معشوقِ بنی سرخ لباس اس نے جو پہنا
اس اوج پہ وہ سر کو جھکائے ہوئے رہنا
جوہر تھے کہ پہنے تھی دلہن پھولوں کا گہنا
سیب چمنِ خلد کی بو باس تھی پھل میں
رہتی تھی وہ شبیر سے دولہا کی بغل میں

سر ٹپکے تو موج اس کی روانی کو نہ پہونچے
قلزم کا بھی دھارا ہو تو پانی کو نہ پہونچے
بجلی کی تڑپ شعلہ فشانی کو نہ پہونچے
خنجر کی زباں تیغ زبانی کو نہ پہونچے
دوزخ کی زبانوں سے بھی آنچ اس کی بری تھی
برچھی تھی، کٹاری تھی، سر وہی تھی، چھری تھی

موجود بھی ہر غول میں اور سب سے جدا بھی
دم خم بھی، لگاوٹ بھی، صفائی بھی، ادا بھی
اک گھاٹ پہ تھی آگ بھی، پانی بھی، ہوا بھی
امرت کا بھی، ہلاہل بھی، مسیحا بھی، قضا بھی
کیا صاحب جوہر تھی عجب ظرف تھا اس کا
موقع تھا جہاں جس کا وہیں صرف تھا اس کا

ہرڈھال کے پھولوں کو اڑاتا تھا پھل اس کا
تھا لشکرِ باغی میں ازل سے عمل اس کا
ڈر جاتی تھی منہ دیکھ کے ہر دم اجل اس کا
تھا قلعۂ چار آئینہ، گویا عمل اس کا
اس در سے گئی کھول کے وہ در نکل آئی
گہہ صدر میں بیٹھی، کبھی باہر نکل آئی

نیزوں پہ گئی برچھیوں والوں کی طرف سے
جا پہونچی کماں داروں پہ پھالوں کی طرف سے
پھر آئی سواروں کے رسالوں کی طرف سے
منہ تیغوں کی جانب کیا ڈھالوں کی طرف سے
بس ہو گیا دفتر نظری، نام و نسب کا
لاکھوں تھے، تو کیا دیکھ لیا جائزہ سب کا

پہونچی جو سپر تک تو کلائی کو نہ چھوڑا
ہر ہاتھ میں ثاب کسی گھائی کو نہ چھوڑا
شوخی کو، شرارت کو، لڑائی کو نہ چھوڑا
تیزی کو، رکھائی کو، صفائی کو نہ چھوڑا
اعضائے بدن قطع ہوئے جاتے تھے سب کے
قینچی سی زباں چلتی تھی فقرے تھے غضب کے

چار آئینہ والوں کو نہ تھا جنگ کا یارا
چو رنگ تھے سینے تو کلیجہ تھا دو پارا
کہتے تھے زرہ پوش نہیں جنگ کا یارا
بچ جائیں تو جانیں کہ ملی جان دوبارہ
جوشن کو سنا تھا کہ حفاظت کا محل ہے
اس کی نہ خبر تھی کہ یہی دامِ اجل ہے

بد کشی لڑائی کا چلن بھول گئے تھے
نادک فگنی تیر فگن بھول گئے تھے
سب حیلہ گری، عہد شکن بھول گئے تھے
بے ہوشی میں ترکش کا دہن بھو گئے تھے
معلوم نہ تھا جسم میں جاں ہے کہ نہیں ۃے
چلاتے تھے قبضے میں کماں ہے کہ نہیں ہے

ڈر ڈر کے قدِ راست سنانوں نے جھکائے
دب دب کے سرِ عجز کمانوں نے جھکائے
ہٹ ہٹ کے علم، رن میں جوانوں نے جھکائے
سر خاک پہ گرگر کے نشانوں نے جھکائے
غل تھا کہ پناہ، اب ہمیں یا شاہِ زماں دو
پھیلائے تھے دامن کو، پھریرے، کہ اماں دو

شہ کہتے تھے ہے باڑھ پہ دریا نہ رکے گا
اس موج پہ آفت کا طمانچہ نہ رکے گا
بے فتح و ظفر، دلبر زہرا نہ رکے گا
تاغرق نہ فرعون ہو، موسیٰؑ نہ رکے گا
ہے بحرِ غضب نام ہے قہر صمد اس کا
رکنے کا نہیں شام تلک جزر و مد اس کا

اس صف سے گئے بیچ سے اس غول کے نکلے
جو فوج چھڑی منہ پہ اسے رول کے نکلے
انبوہ سے یوں تیغِ دوسر تول کے نکلے
گویا درِ خیبر کو، علی کھول کے نکلے
دنیا جو بچی، روحِ محمدؐ کا سبب تھا
شبیر اگر رحم نہ کرتے تو غضب تھا

لڑتے تھے مگر غیظ سے رحمت تھی زیادہ
شفقت بھی نہ کم تھی جو شجاعت تھی زیادہ
نانا کی طرح خاطرِ امّت تھی زیادہ
بیٹوں سے غلاموں کی محبّت تھی زیادہ
تلوار نہ ماری جسے منہ موڑتے دیکھا
آنسو نکل آئے جسے دم توڑتے دیکھا

فرماتے تھے اعدا کو ترائی سے بھگا کر
کیوں چھوڑ دیا گھاٹ کو، روکو ہمیں آ کر
دعوت یونہی کرتے ہیں مسافر کو بلا کر؟
ہم چاہیں تو پانی بھی پئیں نہر میں جا کر
پر صبر کے دریا میں ہمیں پیاس نہیں ہے
اب زہر یہ پانی ہے کہ عبّاس نہیں ہے

بھولی نہیں اکبر کی ہمیں تشنہ دہانی
وہ چاند سا رخ، وہ قد و قامت، وہ جوانی
وہ سوکھے ہوئے ہونٹ، وہ اعجاز بیانی
دکھلا کے زباں مانگتے تھے نزع میں پانی
کس سے کہیں جو خونِ جگر ہم نے پیا ہے
بعد ایسے پسر کے بھی، کہیں باپ جیا ہے؟

یہ کہہ کے سکینہ کے بہشتی کو پکارے
الفت ہمیں لے آئی ہے پھر پاس تمھارے
لڑتے ہوئے آ پہنچے ہیں دریا کے کنارے
عبّاس، غش آتا ہے ہمیں پیاس کے مارے
اِن سوکھے ہوئے ہونٹوں سے ہونٹوں کو ملا دو
کچھ مشک میں پانی ہو تو بھائی کو پلا دو

لیٹے ہوئے ہو ریت میں کیوں منہ کو چھپائے
اٹھو کہ سکینہ کو یہاں ہم نہیں لائے
غافل ہو، برادر تمھیں کس طرح جگائے
ہے عصر کا وقت، اے اسداللہ کے جائے
خوش ہوں گا میں، آگے جو عَلم لے کے بڑھو گے
کیا بھائی کے پیچھے نہ نماز آج پڑھو گے؟

کہہ کر یہ سخن رونے لگا بھائی کو بھائی
تلوار سے مہلت ستم ایجادوں نے پائی
جس فوج نے رن چھوڑ دیا تھا وہ پھر آئی
دو روز کے پیاسے یہ، گھٹا شام کی چھائی
بارش ہوئی تیروں کی ولی ابنِ ولی پر
سب ٹوٹ پڑے ایک حسین ابنِ علی پر

کی شہ نے جو سینے پہ نظر پونچھ کے آنسو
سب چھاتی سے تھے پہلوؤں تک تیر سہ پہلو
ہر سمت سے تیغیں جو لگاتے تھے جفا جو
سالم نہ کلائی تھی، نہ شانہ تھا، نہ بازو
برگشتہ زمانہ تھا شہِ تشنہ گلُو سے
پھل برچھیوں کے سرخ تھے سیّد کے لہو سے

زخموں سے جو وہ دستِ مبارک ہوئے بیکار
ہرنے پہ دھری شاہ نے سپر، میان میں تلوار
بس کعبۂ ایماں کے قریب آ گئے کفّار
مظلوم کو تیغیں جو لگانے لگے اک بار
یوں شاہ کو گھیرے تھے پرے فوجِ ستم کے
جس طرح صف آرا تھے صنم گرد حرم کے

سجدے کی جگہ چھوڑی نہ تیروں نے جبیں پر
تقدیر نے لکھّے کئی نقش ایک نگیں پر
کثرت تھی جراحت کی رخِ قبلۂ دیں پر
ہر جا خطِ شمشیر تھی قرآنِ مبیں پر
تلواروں کے ٹکڑے تھے ہر اک جزوِ بدن پر
مجموعہ پریشان تھا، سی پار تن پر

حضرت کی یہ صورت تھی، فرس کا تھا یہ احوال
منہ تیغوں سے زخمی تھا بدن تیروں سے غربال
گھائل تھی جبیں، خون میں ڈوبی ہوئی تھی یال
گردن کا وہ کینڈا نہ وہ شوخی تھی نہ وہ چال
ہر سمت سے تیروں کا جو مینہ اس پہ پڑا تھا
پر کھولے ہوئے دھوپ میں طاؤس کھڑا تھا

جھک جاتے تھے ہرنے پہ جو غش میں شہِ ابرار
منہ پھیر کے آقا کی طرف تکتا تھا راہوار
چمکار کے فرماتے تھے شبیّرِ دل افگار
اب خاتم جنگ ہے اے اسپِ وفادار
اتریں گے بس اب تجھ سے چھٹا ساتھ ہمارا
نہ پاؤں ترے چلتے ہیں، نہ ہاتھ ہمارا

زخمی ہے، نہیں اب تری تکلیف گوارا
گرتے ہیں سنبھلنے کا ہمیں بھی نہیں یارا
کیا بات تری، خوب دیا ساتھ ہمارا
آ پہنچا ہے منزل پہ ید اللہ کا پیارا
تو جس میں پلا ہے وہ گھر اک دم میں لٹے گا
بچپن کا ہمارا ترا اب ساتھ چھٹے گا

گھیرے ہیں عدو، خیمے تلک جا نہیں سکتے
کھوئی ہے جو طاقت اسے اب پا نہیں سکتے
مشکل ہے سنبھلنا، تجھے دوڑا نہیں سکتے
پہلو ترے مجروح ہیں، ٹھکرا نہیں سکتے
حیواں کو بھی دکھ ہوتا ہے زخموں کے تعب کا
میں درد رسیدہ ہوں، مجھے درد ہے سب کا

کس طرح دکھاؤں کہ ترے زخم ہیں کاری
میں نے تو کسی دن تجھے قمچی نہیں ماری
گھوڑے نے سنی درد کی باتیں جو یہ ساری
دو ندّیاں اشکوں کی ہوئیں آنکھوں سے جاری
حیواں کو بھی رقّت ہوئی اس لطف و کرم پر
منہ رکھ دیا مڑ کر شہِ والا کے قدم پر

گردن کو ہلایا کہ مسیحا، نہ اُتریے
دم ہے ابھی مجھ میں مرے آقا، نہ اُتریے
تلواریں لیے گرد ہیں اعدا، نہ اُتریے
سب فوج چڑھی آتی ہے مولا، نہ اُتریے
اے وائے ستم صدر نشیں خاک نشیں ہو
حسرت ہے کہ مر جاؤں تو خالی مری زیں ہو

شہ نے کہا، تا چند مسافر سے مَحبّت
وہ تو نے کیا، ہوتا ہے جو حقِ رفاقت
بتلا تو سنبھلنے کی بھلا کون ہے صورت
نہ ہاتھ میں، نہ پاؤں میں نہ قلب میں طاقت
بہتر ہے کہ اتروں، نہیں تیورا کے گروں گا
پھٹ جائیں گے سب زخم جو غش کھا کے گروں گا

ہے عصر کا ہنگام، مناسب ہے اترنا
اس خاک پہ ہے شکر کا سجدہ ہمیں کرنا
گو مرحل صعب ہے دنیا سے گزرنا
سجدے میں کٹے سر کہ سعادت ہے یہ مرنا
طاعت میں خدا کی نہیں صرفہ تن و سر کا
ذی حق ہیں ہمیں اس کے کہ ورثہ ہے پدر کا

اترا یہ سخن کہہ کے وہ کونین کا والی
خاتم سے نگیں گر گیا، زیں ہو گیا خالی
اس دکھ میں نہ یاور تھے، نہ مولا کے موالی
خود ٹیک کے تلوار کو سنبھلے شہِ عالی
کپڑے تنِ پُر نور کے سب خوں میں بھرے تھے
اک ہاتھ کو راہوار کی گردن پہ دھرے تھے

منہ یال پہ رکھ رکھ کے یہ فرماتے تھے ہر بار
جا ڈیوڑھی پہ اے صاحبِ معراج کے راہوار
اب ذبح کریں گے ہمیں اک دم میں ستمگار
زینب سے یہ کہنا کہ سکینہ سے خبردار
رہنا وہیں جب تک مرا سر تن سے جدا ہو
لے جائیو بانو کو جدھر حکمِ خدا ہو

یہ کہہ کے جو سرکا اسداللہ کا جایا
اک تیر جبیں پر بنِ اشعث نے لگایا
فریاد نے زہرا کی دو عالم کو ہلایا
پیکانِ سہ پہلو عقبِ سر نکل آیا
تڑپے نہ، زہے صبر امامِ دو جہاں کا
سوفار نے بوسہ لیا سجدے کے نشاں کا

حضرت نے جبیں سے ابھی کھینچا نہ تھا وہ تیر
جو سر پہ لگی تیغِ بنِ مالکِ بے پیر
ابرو تک اتر کر جو اٹھی ظلم کی شمشیر
سر تھام کے بس بیٹھ گئے خاک پہ شبّیر
چلّائے ملک دیکھ کے خوں سبطِ نبی کا
تھا حال یہی مسجدِ کوفہ میں علی کا

بیٹھے جو سوئے قبلہ دو زانو شہِ بے پر
جھکتے تھے کبھی غش میں اٹھاتے تھے کبھی سر
تھے ذکرِ خدا میں کہ لگا تیر دہن پر
یاقوت بنے ڈوب کے خوں میں لبِ اطہر
بہہ آیا لہو تا بہ زنخدانِ مبارک
ٹھنڈے ہوئے دو گوہرِ دندانِ مبارک

نیزے کا بنِ وہب نے پہلو پہ کیا وار
کاندھے پہ چلی ساتھ زرارہ کی بھی تلوار
ناوک بنِ کامل کا کا کلیجے کے ہوا پار
بازو میں در آیا تبرِ خولیِ خونخوار
تلوار سے وقفہ نہ ملا چند نَفَس کا
دم رک گیا نیزہ جو لگا ابنِ انَس کا

تھرّا کے جھکے سجدۂ حق میں شہِ ابرار
شورِ دہلِ فتح ہوا فوج میں اک بار
خوش ہو کے پکارا پسرِ سعد جفا کار
اے خولی و شیث و بنِ ذی الجوشنِ جرّار
آخر ہے بس اب کام امامِ ازلی کا
سر کاٹ لو سب مل کے حسین ابنِ علی کا

لکھتا ہے یہ راوی کہ بپا ہو گیا محشر
بارہ ستم ایجاد بڑھے کھینچ کے خنجر
اک سیّدہ نکلی درِ خیمہ سے کھلے سر
برقع تھا، نہ مقنع تھا، نہ موزے تھے نہ چادر
چلّائے لعیں خوف سے ہاتھ آنکھوں پہ دھر کے
لو فاطمہ آتی ہے بچانے کو پسر کے

ہلتا تھا فلک، ہاتھوں سے جب پیٹتی تھی سر
بجلی کی طرح کوندتے تھے کانوں کے گوہر
فرماتی تھیں، فِضّہ جو اڑھا دیتی تھی مِعجَر
فریادی ہوں، فریادی کو زیبا نہیں چادر
سر ننگے یونہی جاؤں میں روضے پہ نبی کے
پردہ تو گیا ساتھ حسین ابنِ علی کے

اُس بھیڑ میں آ کر وہ ضعیفہ یہ پکاری
اے سبطِ نبی، ابنِ علی، عاشقِ باری
گھوڑا تو ہے کوتل، کدھر اتری ہے سواری
بھیّا، بہن آئی ہے زیارت کو تمھاری
مر جاؤں گی حضرت کو جو پانے کی نہیں میں
بے آپ کے دیکھے ہوئے جانے کی نہیں میں

اُس وقت شہِ دیں نے سنی زاریِ خواہر
جس وقت کہ تھا حلقِ مبارک تہِ خنجر
فرمایا اشارے سے کہ اے شمرِ ستم گر
زینب نکل آئی ہے، ٹھہر جا ابھی دم بھر
آخر تو سفر ہوتا ہے اس دارِ محن سے
دو باتیں تو کر لینے دے بھائی کو بہن سے

منہ پھیر لیا شمر نے خنجر کو ہٹا کے
دی شہ نے یہ زینب کو صدا اشک بہا کے
تڑپاتی ہو بھائی کو بہن بلوے میں آ کے
دیکھو گی کِسے، ہم تو ہیں پنجے میں قضا کے
اٹھ سکتے نہیں جسم پہ تلواریں پڑی ہیں
گھبراؤ نہ، امّاں مرے پہلو میں کھڑی ہیں

جاؤ صفِ ماتم پہ کرو گریہ و زاری
گھر سے نکل آئے نہ سکینہ مری پیاری
فردوس سے آ پہنچی ہے نانا کی سواری
بس اب نہ سنو گی بہن آواز ہماری
رونا ہے تو رو لیجو مرے لاشے پہ آ کے
ہٹ جاؤ کہ سر کٹتا ہے سجدے میں خدا کے

دوڑی یہ صدا سن کے ید اللہ کی جائی
چلّائی کہ دیدار تو میں دیکھ لوں بھائی
پر ہائے، بہن بھائی تلک آنے نہ پائی
یاں ہو گئی سیّد کے تن و سر میں جدائی
قاتل کو نہ گردن کو نہ شمشیر کو دیکھا
پہنچیں تو سناں پر سرِ شبّیر کو دیکھا

سر دیکھ کے بھائی کا وہ بے کس یہ پکاری
دکھ پائی بہن آپ کی مظلومی کے واری
خنجر سے یہ گردن کی رگیں کٹ گئیں ساری
تم مر گئے پوچھے گا خبر کون ہماری
آفت میں پھنسی آل رسولِ عَرَبی کی
اب جائیں کہاں بیٹیاں زہرا و علی کی

ہے ہے، پسرِ صاحبِ معراج حُسینا
پردیس میں بیووں کا لٹا راج حُسینا
گویا کہ علی قتل ہوئے آج حُسینا
ہے ہے، کفن و گور کے محتاج حُسینا
پرسا بھی ترا دینے کو آتا نہیں کوئی
لاشا بھی زمیں پر سے اٹھاتا نہیں کوئی

قربان بہن، اے مرے سرور، مرے سیّد
مذبوحِ قفا کشت خنجر، مرے سیّد
اے فاقہ کش و بیکس و بے پر، مرے سیّد
پنجے میں ہے قاتل کے ترا سر، مرے سیّد
دیتے ہو صدا کچھ، نہ بلاتے ہو بہن کو
کس یاس سے تکتے چلے جاتے ہو بہن کو

بھیّا، مرا کوئی نہیں، تم خوب ہو آگاہ
احمد ہیں، نہ زہرا، نہ حَسن ہیں نہ یداللہ
ڈھارس تھی بڑی آپ کی اے سیّدِ ذی جاہ
چھوڑا مجھے جنگل میں یہ کیا قہر کیا، آہ
چلتے ہوئے کچھ مجھ سے نہ فرما گئے بھائی
بھینا کو نجف تک بھی نہ پہنچا گئے بھائی

اے میرے شہید اے مرے ماں جائے برادر
کس سے ترا لاشہ بہن اٹھوائے برادر
کس طرح مرے دل کو قرار آئے برادر
پانی بھی نہ قاتل نے دیا ہائے برادر
انساں پہ ستم یہ کبھی انساں نہیں کرتا
حیواں کو بھی پیاسا کوئی بے جاں نہیں کرتا

خاموش انیس اب کہ ہے دل سینے میں بے چین
لکھّے نہیں جاتے جو زینب نے کیے بین
اب حق سے دعا مانگ کہ اے خالقِ کونین
حاسد ہیں بہت، دل کو عطا کر مرے تو چین
ناحق ہے عداوت انھیں اس ہیچ مداں سے
بے تیغ کٹے جاتے ہیں شمشیرِ زباں سے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.