یاد ایام عشرت فانی
اپر پرائمری سے کیا نکلے گویا بچوں سے نکل بڑوں میں آ گئے۔ یہاں کی دنیا ہی نئی ہے۔ جو لڑکا ہے آفت کا پر کالہ ہے، جو سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے، جو کر گزرتے ہیں اس کا اب خیال کر کے ہنسی آتی ہے۔ غرض مدرسہ نیا، ماسٹر نئے، ہم نئے، ساتھی نئے، زمین نئی، آسمان نیا۔ جس مدرسے میں اب داخل ہوئے اس میں کسی زمانے میں شاہی کتب خانہ تھا۔ عمارت کیا ہے ایک جہاز ہے۔ سیدھی یہاں سے وہاں تک چلی گئی ہے۔ کمرے اتنے بڑے بڑے ہیں کہ کسی اسپتال کے بھی کیا ہوں گے۔ عمارت کے دو طرف باغ ہیں اور دو طرف سڑکیں۔ باغ سے گزرے تو کرکٹ کے میدان، ایک بہت بڑا، تین ذرا چھوٹے۔ غرض مدرسے نے کوئی دو میل کا رقبہ گھیر رکھا ہے۔ جیسا مدرسہ شاندار ہے ویسے ہی یہاں کے طالب علم بھی لا ثانی ہیں۔ پڑھنے میں نہیں بد معاشی میں۔ دماغ سے اتار اتار کر وہ بد معاشیاں کرتے ہیں کہ شیطان بھی پناہ مانگے۔ اپنی سلطنت علاحدہ قائم کر رکھی ہے۔ باقاعدہ تخت نشینی ہوتی ہے۔ سلطان وقت کی عدولی حکمی قیامت ہے۔ جب میں اس مدرسے میں داخل ہوا تو اس وقت میرے ہی ہم نام حاکم وقت تھے۔ پھر میں ہی ان کا جانشین ہوا۔ اس لئے ان کے بعض واقعات قلم بند کرنا میرا فرض عین ہے۔ ان کے حالات کا تذکرہ موقع موقع پر کروں گا۔ فی الحال مدرسے کا نقشا اور ماسٹروں کی شکلیں ذہن نشین کر لیجئے۔ مدرسے کا ایک بڑا دروازہ تھا۔ لڑکوں کو ادھر سے آنے میں ذرا چکر پڑتا تھا اس لئے یاروں نے احاطہ کی دیوار کی اینٹیں نکال نکال کر دوسرا راستہ بنا لیا۔ کئی دفعہ مرمت کرائی گئی۔ مگر ہر دفعہ دو تین روز کے بعد ہی وہ دیوار خود بخود گر گرا کر راستہ بن گئی۔ آخر ناچار ہو وہاں چھوٹا سا دروازہ قائم کر دیا۔ دروازہ کیوں کہو دیوار میں اتنی جگہ کر دی کہ ایک آدمی گذر جائے۔ بس یہی راستہ چلتا تھا۔ صدر دروازہ کا راستہ برائے نام تھا۔ ادھر سے کوئی چلتا چلاتا نہیں تھا۔ اس چھوٹے سے دروازے سے نکل کرذرا آگے بڑھے تو مدرسے کی عمارت شروع ہو گئی۔ کرسی ذرا اونچی ہے۔ چونکہ اس رخ پر مدرسے کی چوڑان ہے اس لئے کمرے میں جانے کے لئے سیڑھیاں نہیں ہیں۔ قلانچ مار کر چبوترہ چڑھنا ہوتا ہے۔ چبوترہ پر چاروں طرف بر آمدہ ہے۔ بر آمدے سے گذر کر جس کمرے میں آتے ہیں اس کی لمبان چوڑان کچھ نہ پوچھو۔ بس یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی ٹینس کورٹ پر چھت ڈال دی ہے۔ اس کمرے میں تین جماعتیں بیٹھتی ہیں۔ شروع میں فارسی کی جماعت، اس کے بعد حساب کی، اس کے بعد عربی کی۔ اس کمرے سے ملا ہوا جو کمرہ ہے اس میں ہیڈ ماسٹر صاحب بیٹھتے ہیں۔ یہ کمرہ بھی بہت بڑا ہے۔ دیواروں سے لگی ہوئی کتابوں کی بڑی الماریاں کھڑی ہیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرے کے بعد انٹرنس کی جماعت کے، اس کے بعد مڈل کی، اس کے بعد ساتویں کی اور اس کے بعد چھٹی جماعت کے کمرے ہیں۔ ان چاروں کمروں کے سامنے بر آمدہ اور بر آمدے کے آگے چھوٹا سا صحن ہے۔ صحن کے کنارے پر کٹہرا لگا ہو اہے۔ اس بر آمدے اور صحن کی کرسی کوئی چار پانچ گز کی ہوگی۔ کرسی کی وجہ سے نیچے جو جگہ نکل آئی ہے اس میں پیاؤ کرکٹ کے سامان اور کاچھی کی کوٹھریاں ہیں۔ ماسٹروں کے حقے بھی یہیں رکھے رہتے ہیں، کوئی گھنٹہ خالی ہوا اور آ کر د م مار گئے۔ چھٹی جماعت کے کمرے سے ملا ہوا سائنس کا کمرہ ہے اور اس کے برابر دو کمرے انسپکٹر صاحب مدارس نے رہنے کے لئے لے رکھے ہیں۔ اس کے بعد سیڑھیاں دے کر عمارت کو نیچا کر دیا ہے۔ اس حصے میں دو کمرے ہیں۔ ایک میں اسپیشل کلاس اور دوسرے میں پنڈت جی بیٹھتے ہیں۔ پنڈت جی کے کمرے کے سامنے کرکٹ کا چھوٹا میدان اور اس میدان سے ملا ہوا، بورڈنگ ہاؤس ہے۔ میرے مدرسے چھوڑنے کے بعد ان عمارتوں میں بہت رد و بدل ہو گیا ہے۔ کرکٹ اور ٹینس کے تین چھوٹے چھوٹے میدانوں اور باغ کو برابر کر کے کئی اور عمارتیں بنا دی ہیں۔ اس طرح گنجائش تو بہت نکل آئی مگر اصل عمارت کی رونق بر باد ہو گئی۔ پڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ ہر گھنٹے کے بعد بلحاظ مضمون بجائے ماسٹروں کے تبدیل ہونے کے جماعتیں ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں لین باندھ کر جاتی تھیں۔ جو کمرے جماعتوں کے نام سے موسوم تھے ان کا صرف یہ مطلب تھا کہ وہاں انگریزی کے مدرس بیٹھے تھے، اور وہی اس جماعت کے ذمے دار سمجھے جاتے تھے۔ فارسی کے مولوی صاحب چھٹی جماعت سے لگا کر انٹرنس تک کو فارسی اور اسی طرح عربی کے مولوی صاحب مدرسے بھر کے عربی پڑھنے والے طالب علموں کو عربی پڑھاتے تھے۔ پہلے میں ماسٹروں کے حالات لکھ دوں اس کے بعد دوسرے واقعات سناؤں گا کیونکہ جب تک ہر ماسٹر کی حالت معلوم نہ ہو جائے، واقعات سن کر مزا آنا مشکل ہے۔ جس سلسلے سے میں نے کمروں کا تذکرہ کیا ہے اسی سلسلے سے ماسٹروں کے حالات بھی لکھتا ہوں۔ فارسی کے مولوی صاحب ایک تماشا تھے۔ کوئی 60 سال کی عمر ہوگی۔ چھوٹا سا قد، لمبا چہرہ، سرخ و سفید رنگت، نیچی سفید داڑھی، بڑی بڑی سرمہ آلود آنکھیں، ان پر موٹے موٹے تالوں کی عینک، چوڑا دہانہ، ہر وقت پان کھائے رہتے تھے۔ بڑھاپے کی وجہ سے دانت نہیں رہے تھے اس لئے پیک منہ سے بہہ بہہ کر ٹھوڑی اور ڈاڑھی کی خبر لاتی تھی۔ سر پر چھوٹا سا عمامہ یا گول چندوے کی ٹوپی، جسم پر اچکن، اس کے اوپر کالی مخمل کا چغہ، شرعی سفید پیجامہ پاؤں، میں لال نری کی جوتی، بڑی بے چین طبیعت پائی تھی۔ پڑھانے میں ہر وقت ادھرسے ادھر اور ادھر سے ادھر پھدکتے تھے۔ باتیں بھی کچھ عجیب طرح کی کرتے تھے۔ ایک بات کی اور تالی بجائی، پینترا بدل سیدھا ہاتھ آگے بڑھایا اور الٹا ہاتھ پیچھے لے گئے۔ پھر کوئی بات کی اور پھر وہی تالی اور وہی پینترا۔ غرض ان کی جماعت میں پڑھنے پڑھانے کی اتنی آواز نہیں ہوتی تھی جتنی تالیوں کی پھٹاپھٹ۔ اپنی اس خاص حرکت کی وجہ سے مدرسہ تو مدرسہ، شہر بھر میں ہیجڑے مولوی صاحب کے نام سے مشہور ہو گئے تھے۔ صوفی مشرب آدمی تھے اگرخدا نخواستہ کسی نے کسی بزرگ کی شان میں ذرا بھی گستاخی کی تو اس طرح بپھر جاتے کہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔ اس کمرے کی بیچ کے حصے میں حساب کے مولوی صاحب بیٹھتے تھے۔ بڑے مضبوط او رگٹھیلے آدمی تھے۔ پہلے حساب سکھاتے تھے، پھر عربی کے مولوی صاحب ہو گئے۔ گول چہرہ، سانولی رنگت، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، سرخ بھرواں ڈاڑھی، سر پر کالی مخمل کی چوگوشیہ ٹوپی، جسم پر کشمیرے کی اچکن، اس پر کشمیری کام کا چغہ، شاعر تھے اس لئے مذہب سے لا پروا تھے۔ ہر وقت گنگناتے رہتے تھے۔ بعض وقت تو ایسے محو ہو جاتے تھے کہ ساری جماعت کی جماعت اٹھ کر چلی جاتی اور ان کو خبر بھی نہ ہوتی۔ بلا کے ہوشیار آدمی تھے۔ متین اور سنجیدہ ایسے تھے کہ خدا کی پناہ۔ ان کے کمرکے نیچے کا حصہ بھاری ہو کر چکتی کی شکل ہو گیا تھا، اس وجہ سے طالب علموں نے ان کو مولوی دنبہ کا خطاب عطا کیا تھا۔ میں پانچ برس اس مدرسے میں رہا۔ اس کے بعد بھی کئی برس تک ان سے ملنے کا اتفاق رہا لیکن جو اچکن اور چغہ میں نے پہلے دن ان کو پہنے دیکھا تھا وہ ان سے نہ چھوٹنا تھا نہ چھوٹا۔ سنتا ہوں اب ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ شاید اسی اچکن و چغہ میں دفن ہوئے ہوں۔ اس کمرے کے دوسرے کونے پر عربی کے مولوی صاحب کی جماعت بیٹھتی تھی۔ بڑے اللہ والے آدمی تھے۔ تھوڑے ہی دنوں بعد ان کی پنشن ہو گئی۔ ان سے زیادہ واسطہ بھی نہیں پڑا۔ اس لئے ان کے متعلق کچھ لکھنا بھی فضول ہے۔ اس کمرے سے ملا ہوا دوسرا کمرہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا تھا۔ یہ جتنے بد صورت تھے اتنے ہی لائق اور ہوشیار تھے۔ مگر شراب نے ان کی بڑی بری حالت کر دی تھی۔ ہر وقت غین رہتے تھے اور ہر دوسرے تیسرے روز چپراسیوں کو ان کی پتلون بدلوانے کی ضرورت پڑتی تھی۔ کرسی پر سے گر پڑنا تو معمولی بات تھی۔ مگر باوجود ان تمام باتوں کے جب پڑھانے بیٹھتے تو اس طرح پڑھاتے تھے کہ پھر اس کو بھولنا مشکل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یونیور سٹی میں ہمیشہ ان کی جماعت کا کوئی نہ کوئی طالب علم انگریزی میں اول رہتا تھا۔ ان خاص ماسٹروں کا ذکر کر کے اب میں واقعات کو لیتا ہوں۔ بقیہ ماسٹروں کے حالات موقع موقع سے بیان کروں گا۔ سب سے پہلے میں طالب علموں کے بادشاہ بے تاج و ملک کے حالات لکھتا ہوں تاکہ اس مدرسے کے لڑکوں کا کچھ رنگ معلوم ہو جائے۔ آپ کا قد کوئی پونے پانچ فٹ کا تھا۔ ایسے سوکھے تھے کہ پھونک مارو تو اڑ جائیں۔ مگر اثر اور رعب ایسا تھا کہ لڑکے تو لڑکے ماسٹروں کا دم نکلتا تھا۔ ہر سال مڈل کے امتحان میں بیٹھتے اور فیل ہو تے۔ فیل کیوں نہ ہوتے، پورا امتحان ہی نہ دیتے تھے۔ اس زمانے میں مڈل کا امتحان دسمبر میں ہوتا تھا۔ دسمبر کرکٹ کا خاص مہینہ ہے۔ یہ کرکٹ کے عاشق تھے۔ خود تو نہیں کھیلتے تھے، ہاں سیر دیکھنے کا شوق تھا۔ یہ امتحان دے رہے ہیں کہ کسی نے جھوٹ موٹ آ کر کہہ دیا کہ آج تو باغ میں علی گڑھ والوں کا میچ ہے۔ بس اتنا سن لینا ان کے لئے کافی تھا۔ امتحان چھوڑ چھاڑ باغ کا راستہ لیا۔ واپس آتے آتے ایک پرچہ نکل گیا۔ چلو فیل ہو گئے۔ دوسرا سال آیا اور پھر کوئی نہ کوئی پرچہ غائب۔ ان کے امتحان کے وہ وہ واقعات ہیں کہ خیال کرنے سے ہنسی آتی ہے۔ ایک دفعہ آ پ نے ایک کوا خریدا پیٹی باندھ ہاتھ پر بٹھا اس کو امتحان میں لے گئے۔ خیر یہیں تک ہوتا تو غنیمت تھا۔ یہ تھوڑی دیر کے بعد پیٹی کو جھٹکا دیتے، وہ ایسی کائیں کائیں کرتا سارا کمرہ گونج جاتا۔ بچارے گارڈوں نے منع کیا مگر یہ کب سننے والے تھے۔ آخر جب غل شور بہت بڑھا تو دوسرے کمرے سے امتحان کے سپرنٹنڈنٹ صاحب دیکھنے آئے کہ آخر یہ کیا قیامت مچی ہوئی ہے۔ دیکھتے کیا ہیں کہ ایک صاحب بائیں ہاتھ پر کوا بٹھائے دائیں ہاتھ سے پرچہ لکھ رہے ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب انگریز تھے اور بڑے غصیلے تھے۔ یہ رنگ دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئے۔ آتے ہی ان کو ڈانٹا۔ یہ چپکے بیٹھے اپنا کام کئے گئے۔ جب صاحب نے بہت غل مچایا تو یہ بھی نہایت متانت سے اٹھے۔ پوچھا، ’’فرمائیے کیا فرماتے ہیں۔‘‘ صاحب نے کہا، ’’امتحان کے کمرے میں کوا لانے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ آ پ نے امتحان کی ہدایتوں کا پرچہ نکالا، ان کے ہاتھ میں دیا اور کہا کہ، ’’براہ کرم وہ ممانعت بتا دیجئے کہ کہاں لکھی ہوئی ہے۔ کتاب یا کوئی پرچہ امتحان کے کمرے میں لانا منع ہے۔ کوا لانا منع نہیں ہے۔ پہلے قواعد میں ترمیم کرا دیجئے اس کے بعد اعتراض کیجئے۔ ورنہ اس طرح فضول باتیں کر کے جو میرا وقت ضائع کیا جاتا ہے، اطلا ع میں یونیور سٹی میں کر دوں گا۔‘‘ خیر بچارے صاحب تو چپکے ہو کر چلےآئے۔ مگر خود کوے نے اپنا چھٹکارا کرا لیا۔ انگوٹھے پر اس زور سے ٹھونک ماری کہ ان کو لاچار اڑا دینا پڑا۔ ایک دفعہ کیا کیا کہ امتحان میں بانسری لے کر پہنچے۔ تھوڑی دیر تک تو پرچہ لکھتے رہے۔ اس کے بعد بانسری نکال کر بجانی شروع کی۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے منع کیا۔ انہوں نے وہی قواعد کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ، ’’تم کو حق نہیں ہے کہ بانسری بجا کر دوسروں کا دماغ پریشا کرو۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’بہت اچھا، مجھے کسی دوسرے کمرے میں بٹھا دیجئے۔ میں اس وقت اپنا دماغ ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔ طبیعت بحال ہو جائے گی، اس کے بعد پرچہ لکھوں گا۔‘‘ خیر بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر ان سے بانسری لے لی گئی۔ ان کے امتحان کا ایک واقعہ ایسا ہے کہ جب کبھی خیال آتا ہے تو ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں۔ مڈل کا امتحان ہے۔ تاریخ کا پرچہ ہے۔ یہ نہایت اطمینان سے بیٹھے مولوی ذاکر حسین کا خلاصہ تاریخ ہند سامنے رکھے نقل کر رہے ہیں۔ ہیجڑے مولوی صاحب اس حصہ کے گارڈ ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ہیں یہ کیا ہو رہا ہے۔ امتحان اور یہ دیدہ دلیری۔ بڑے لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے ان کے پاس آئے۔ جو گفتگو ان میں ہوئی وہ لفظ بلفظ لکھتا ہوں۔ پڑھنے میں جب مزہ آئے گا کہ جہاں میں ’’تالی‘‘ لکھوں وہاں مولوی صاحب کی طرح آپ بھی پینترا بدل کر تالی بجائیں اور ایک ہاتھ سامنے اور دوسرا پیچھے لے جائیں۔ یہیں نہیں جہاں کہیں مولوی صاحب کی گفتگو آئے، وہاں اس طرح کیجئے اور پھر دیکھئے کہ ہمارے مولوی صاحب کیا طرفہ معجون تھے۔ اچھا تو اب دونوں میں یہ گفتگو شروع ہوئی۔ مولوی صاحب۔ ہیں، یہ کیا ہو رہا ہے (تالی) یہ۔ کچھ نہیں نقل ہو رہی ہے۔ مولوی صاحب۔ نکا ل دیے جاؤ گے (تالی) یہ۔ ہم کو کوئی نہیں نکال سکتا۔ مولوی صاحب۔ نہیں نکال سکتا (تالی) ہم نکال سکتے ہیں (تالی) امتحان ہے (تالی) کوئی مذاق ہے۔ (تالی) یہ۔ جایئے جائیے اپنا کام کیجے۔ ہمارے نقل کرنے میں ہرج ہوتا ہے۔ وقت کم رہ گیا ہے۔ پرچہ بڑا ہے۔ مولوی صاحب۔ چلو (تالی) اٹھو (تالی) صاحب کے پاس چلو (تالی) یہ۔ چلئے۔ ہم بھی دیکھیں آپ کے صاحب ہمارا کیا کر لیتے ہیں۔ الغرض یہ اٹھے، کتاب ہاتھ میں لی، آگے آگے مولوی صاحب اور پیچھے پیچھے یہ، دوسرے کمرے میں پہنچے۔ صاحب بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔ مولوی صاحب نے جاتے ہی تالی بجائی۔ انہوں نے گردن اٹھا کر دیکھا۔ مولوی صاحب۔ غضب ہے (تالی) نقل ہو رہی ہے (تالی) بڑے گستاخ ہو گئے ہیں (تالی) ہم سے نہیں ڈرتے (تالی) آپ سے بھی نہیں ڈرتے (تالی) کتاب کھولے بیٹھے ہیں (تالی) نقل کر رہے ہیں (تالی) کہتے ہیں (تالی) صاحب ہمارا کیا کر لیں گے (تالی) بڑی مشکل سے لایا ہوں (تالی) سخت سزا دی جائے۔ (تالی) صاحب نے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے کہا، ’’جناب یہ مولوی صاحب میرے دشمن ہیں۔ غدر کے پہلے سے ان کے اور ہمارے خاندان میں دشمنی چلی آ رہی ہے۔ زبردستی پرچہ لکھتے لکھتے مجھ کو یہاں گھسیٹ لائے کہ چلو میں صاحب سے کہہ کر تم کو نکلوا دیتا ہوں۔ خواہ مخواہ کا الزام ہے۔ آپ میری تلاشی لے لیں۔ کوئی میں دیوانہ تھا جو اس طرح سامنے کتاب رکھ کر نقل کرتا۔ نقل کرتے ہیں تو چھپ چھپا کر نقل کرتے ہیں۔ نہ اس طرح کہ سامنے کتاب کھولے بیٹھے ہیں، نقل کر رہے ہیں، صاحب کو بھی یہ بات خدا لگتی معلوم ہوئی۔ ان کی خوب اچھی طرح تلاشی لے لی گئی۔ کتاب تو کتاب ایک کاغذ کا پرزہ بھی نہ نکلا۔ آخر صاحب نے بچارے مولوی صاحب کو بہت ڈانٹا کہ آپ فضول امیدواروں کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ آئندہ ایسا کیا تو کمرے سے نکال دوں گا۔ بہر حال مولوی صاحب شرمندہ شکل وہاں سے واپس ہوئے۔ آگے آگے مولوی صاحب اور پیچھے پیچھے یہ۔ مولوی صاحب پریشان تھے کہ یا اللہ آتے وقت کتاب اس کے ہاتھ میں تھی۔ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں آتے آتے کہاں غائب ہو گئی۔ آخر نہ رہا گیا اور خود ان سے پوچھا۔ مولوی صاحب۔ کتاب کہاں ہے (تالی) آتے وقت تمہارے ہاتھ میں تھی (تالی) راستے میں کہاں غائب کر دی (تالی)یہ۔ کچھ نہیں راستے میں ایک ایک صفحہ کر کے کھا گیا۔ یہ سننا تھا کہ مولوی صاحب نے وہیں سے دے تالی پہ تالی بجانی شروع کی۔ مولوی صاحب۔ غضب ہے (تالی) کھا گیا (تالی) ساری کتاب کھا گیا (تالی) صاحب نے جو یہ تالیوں کی آواز سنی تو یہ بھی نہ پوچھا کہ کیا معاملہ ہے۔ حکم دے دیا کہ مولوی صاحب کو کمرے سے باہر کر دیا جائے۔ خیر بچارے نکال دیے گئے۔ اس واقعہ کو بیان کر کے برا بھلا کہا کرتے تھے۔ مولوی صاحب سے غلطی یہ ہوئی کہ دونوں آگے پیچھے چلے تو بجائے اس کے کہ کتاب خود لے لیتے، کتاب امیدوار صاحب ہی کے ہاتھ میں رہنے دی۔ کتاب تھی بہت چھوٹے چھوٹے بارہ ورق کی۔ وہ راستہ میں چٹ کر گئے۔ بھلا تلاشی میں کیا نکلتا۔ اچھے رہے خود آپ مگر ان کو ڈبو آئےایک زمانہ تھا کہ ہندوستان پر روسیوں کے حملے کا بڑا غل تھا۔ عجیب عجیب خبریں روز اڑا کرتی تھیں۔ کوئی کہتا روسی لاہور میں آ گئے، کوئی کہتا میرٹھ لے لیا۔ غرض کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ انہی دنوں میں ہمارے دوست او ر مڈل کی جماعت کے ماسٹر صاحب میں ان بن ہو گئی۔ یہ ماسٹر صاحب بڑے افعی تھے۔ ہوشیار بھی بہت تھے۔ مگر ذرا چندھے تھے۔ آپ نےپٹاس کا یک بڑا گولہ لا کر ماسٹر صاحب کی کرسی کے پائے کے برابر رکھ دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد کہا، ’’ماسٹر صاحب۔ ابھی جو آپ نے سمجھایا تھا۔ ذرا پھر سے سمجھا دیجئے۔‘‘ وہ بچارے چاک لے سمجھانے بورڈ پر چلے۔ کرسی کا پایہ لگا گولہ میں، گولہ دن سے اڑا۔ ماسٹر صاحب ایک طرف گرے اور کرسی اتنی دور اڑ کر گئی۔ انہوں نے غل مچایا روسی۔ تمام مدرسے میں روسی، روسی کا ہنگامہ مچ گیا۔ جوہے کمروں سے نکل روسی، روسی پکارتا بھاگا چلا جاتا ہے۔ بڑی دیر کے بعد سب کے اوسان درست ہوئے لیکن آخر تک کسی کو معلوم نہیں ہوا کہ آخر یہ واقعہ کیا تھا۔ لڑکوں میں تو کیا ہمت تھی جو ان کے خلاف ایک حرف بھی زبان سے نکالتے۔ ماسٹر بچارے کیا سمجھ سکتے تھے کہ یہ آواز کیا ہوئی اور کیوں ہوئی۔ چند روز بڑی گڑ بڑ رہی۔ اس کے بعد گئی گذری بات ہوئی۔ مگر روسی، روسی کے غل کا زور بہت دنوں تک چلا۔ جہاں کہیں ذرا گڑ بڑ ہوئی او ر لونڈوں نے غل مچایا روسی، روسی۔ ان بادشاہ سلامت کے دو وزیر با تدبیر بھی تھے۔ ایک مسلمان دوسرے ہندو۔ مسلمان وزیر توتلے اور بڑے آفت کے پر کالہ تھے۔ ہندو وزیر بنگال کے رہنے والے تھے مگر غضب کےلڑاکا۔ ایک دفعہ تو ان دونوں نے ایسا ظلم کیا کہ کچھ بیان نہیں ہو سکتا۔ جمنا پر تیراکی کا میلہ تھا۔ ہیڈ ماسٹر سے کہا گیا کہ چھٹی دی جائے۔ انہوں نے انکار کیا۔ بادشاہ نے اپنے وزیروں کو حکم دیا کہ چھٹی کا کوئی بندو بست کیا جائے۔ ان دونوں بد معاشوں نے وہ کیا کہ خیال کرنے سے رونگٹے کھڑے ہو تے ہیں۔ مدرسے کے سامنے باغ تھا۔ باغ میں آم کے ایک درخت میں بڑی شہد کی مکھیوں کا چھتہ لگا ہوا تھا۔ ان دونوں نے جا غلیلوں سے چھتے پر غلے برسانے شروع کئے۔ مکھیوں نے مدرسے کا رخ کیا۔ تمام لڑکوں اور ماسٹروں کو کاٹ کاٹ سوجا دیا۔ دو لڑکوں کو اتنی مکھیاں لپٹیں کہ دونوں وہیں ڈھیر ہو گئے۔ ایک دن کیا چار روز تک مدرسہ بند رہا۔ کمال یہ ہوا کہ باوجود یہ سب کچھ ہونے کے کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ یہ مکھیاں کیوں اڑیں اور کس نے اڑائیں۔ یہ رموز سلطنت تھے جو اب تیس برس بعد پبلک پرظاہرکئے جا رہے ہیں۔ مولوی دنبہ سے ہمارے بادشاہ سلامت بھی بہت چکراتے تھے۔ ان کی متانت، ان کے ڈنڑ قبضے اور ان کی چٹکی کے مقابلے میں تو سب کی ہمت پست تھی۔ چٹکی ایسی لیتے تھے کہ واہ واہ جس کے چٹکی لینی ہوئی، اس کے پاس آ کر کھڑے ہوئے۔ ہاتھ میں کنجی لی۔ انگوٹھے اور کنجی کے بیچ میں لونڈے کے ڈنٹر کی مچھلی دبا کر مسلنا شروع کیا۔ اب یہ کھڑے نہایت اطمینان سے گوشت مسل رہے ہیں، لڑکا ہے کہ تلملا رہا ہے۔ جب بچارہ تکلیف سے زمین پر لوٹنے ہی لگتا، اس وقت کہیں جا کر اس چٹکی سے چھٹکارا ملتا۔ ایک دن شامت اعمال سے مولوی صاحب نے ان کو بھی چٹکا دیا۔1 بھلا ان کی توہین ہو اور یہ خاموش رہیں۔ جاڑے کا موسم تھا۔ مولوی صاحب ٹھنڈک سے بچنے کے لئے دھسہ لے کر آئے تھے۔ دھسہ بچھا کر کرسی کو نرم اور گرم کر لیا تھا۔ مولوی صاحب تو حساب سمجھانے بورڈ پر گئے۔ یہ چپکے چپکے کنی کاٹتے بچتے بچاتے اپنی جگہ سے اتر کرسی تک پہنچے۔ مولوی صاحب کے دھسہ کی اینڈ دی 2 بنائی اور وہیں سب کے سامنے کھڑے ہو کر نہایت اطمینان سے اس میں پیشاب کیا۔ اس کام سے فارغ ہو کر پیجامہ باندھ اپنی جگہ آ بیٹھے۔ مولوی صاحب کی ادھر پیٹھ تھی۔ ان بچارے کومعلوم بھی نہیں ہوا کہ کیا ہو اور کیا نہ ہوا۔ بھلا لڑکوں کی کیا ہمت تھی جو کچھ زبان سے نکالتے یا ہنستے۔ غرض مولوی صاحب حساب سمجھا کر کرسی پر آ بیٹھے۔ تھوڑی دیر کے بعد سیلن پہنچی۔ اب کبھی یہ پہلو بدلتے ہیں کبھی وہ۔ غضب یہ تھا کہ کچھ پوچھ بھی نہیں سکتے تھے۔ ڈرتے تھے کہ کہیں لونڈے یہ نہ اڑا دیں کہ مولوی صاحب کا پیشاب خطا ہو گیا۔ آخر گھنٹہ بج گیا۔ جماعت اٹھ گئی اور مولوی صاحب سوچتے کے سوچتے ہی رہ گئے۔ اب اس سے ہمارے سلطان وقت کے رعب کا اندازہ کر لیجئے کہ یہ معاملہ ساری جماعت کی جماعت کو معلوم تھا مگر راز سلطنت بنا رہا او رکسی کے منہ سے بھاپ تک نہ نکلی۔ جس سال میں اس مدرسہ کی چھٹی جماعت میں پہنچا، اسی سال انہوں نے اسکول چھوڑ ا او رمجھ کو اپنا جانشین مقرر کر کے تخت نشینی کا علان کر دیا۔ ایک چھٹی جماعت والے لڑکے کا والی مدرسہ ہونا تعجب خیز امر ہے۔ بات یہ تھی کہ سلطنت مجھے ارثاً پہنچی۔ سلطان سابق میرے والد کے بیٹے بنے ہوئے تھے۔ ا س لحاظ سے انہوں نے تخت سے دست برداری کر کے اپنے چھوٹےبھائی کو تخت پر بٹھا دیا۔ اور مدرسے کے ہر چھوٹے بڑے کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ اگر اس لڑکے کے حکم کی خلاف ورزی کی یا اس کی مخالفت میں علم بغاوت بلند کیا تو مجھے دور نہ سمجھنا، جب تک یہ حکومت کے قابل ہو اس وقت تک میں اس کا ایجنٹ ہوں۔ جینا مشکل کر دوں گا۔ مجھے بھی راز ہائے سلطنت سے آگاہ کیا او ر ہدایت کی کہ اگر کوئی مشکل ایسی پڑ جائے جس کا حل کرنا دشوار ہوتو بلاتکلف مجھ سے مشورہ کرنا۔ میں تمہاری مدد کو ہر وقت تیار ہوں۔ لیجئے گیارہ برس کی عمر میں ہم پر سلطنت کا بار پڑ گیا۔ میرا زمانہ حکومت گو ایسا درخشاں تو نہ تھا جیسا میرے پیش رو کا تھا لیکن یہ ضرو ر ہے کہ میں بھی کسی سے دب کر نہیں رہا۔ مجھ میں اور سلطان سابق میں صرف یہ فرق تھا کہ ان میں صرف شرارت ہی شرارت تھی۔ میں جتنا شرارت میں تیز تھا اتنا ہی پڑھنے لکھنے میں بھی تیز تھا۔ پانچویں جماعت میں بھی مجھے سرکاری وظیفہ ملا تھااور جب تک میں اس مدرسے میں رہا ہمیشہ وظیفہ لیتا رہا۔ جماعت میں کبھی کسی کو اپنے سے بڑھنے نہیں دیا۔ چنانچہ اب تک میرے تعلیمی کارنامے ہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرے میں لکھے ہوئے موجود ہیں، جاکر دیکھ لیجئے، ثبت است بر جریدہ عالم دوام مامیں نے حکومت کا چارج لیا ہی تھا کہ ٹھوکر کھائی۔ میری جماعت میں ایک لونڈا تھا۔ اپنےکو بڑا ہی خوبصورت سمجھتا اور بڑی چٹک مٹک سے چلتا تھا۔ خیر اس سے تو مجھے کیا غرض تھی مگر اس میں چغلیاں کھانے کا بڑا مرض تھا۔ اس کے دو چار گہرے دوست بھی تھے۔ یہ چغلی کھاتا وہ گواہی دیتے۔ ان لوگوں نے دو تین لڑکوں کو بلا وجہ پٹوا دیا۔ ہماری جماعت کے ماسٹر ایک بنگالی بابو تھے۔ کالی رنگت، وحشت زدہ شکل، فقیروں کا لباس، بڑی بڑی پریشان سفید مونچھیں، حقہ بہت پیتے تھے۔ اس لئے موچھیں زرد ہو گئی تھیں، آگے سے اتنی جھکی ہوئی تھیں کہ ہمیشہ آدھی موچھیں ان کے منہ میں رہتی تھیں۔ بڑے بے وقوف آدمی تھے۔ اس لڑکے نے جو کچھ جا کر کہا وہ انہوں نے مان لیا۔ پھر کسی سے نہ پوچھتے نہ گچھت، ے اٹھ دوسرے لڑکوں کی مرمت کر دیتے۔ لڑکوں نے مجھ سے آ کر شکایت کی۔ مجھے خود اس لونڈے کی باتوں سے نفرت تھی۔ میں نے اس کو حکم دیا کہ یا تو وہ اس طریقہ عمل کو چھوڑے یا مدرسے سے نکل جائے۔ اس نے دوستوں سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا، ’’ابے بکنے دے، وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑاتے تھے۔ اب ہم خود ان کو ٹھوک دیں گے۔‘‘ خیر کچھ دن یونہی گذر گئے۔ اس لونڈے نے اپنے یاروں کے بل پر اور ہاتھ پاؤں نکالے۔ اس کی چغلیوں پر دو چار لڑکے اور پٹ گئے۔ یہ صریحی بغاوت تھی اور مجھے اس کا انتظام کرنا ضرورتھا۔ ایک دن صبح کے وقت مدرسے کے سارے لڑکے میدان میں جمع تھے۔ میں اپنی فوج کے دو افسروں کو لے کر پہنچا اور اس لڑکے کی ایسی درگت بنائی کہ اس کی ساری چٹک مٹک ناک کے رستے نکل گئی۔ مدرسے کا گھنٹہ بجا۔ سب اپنی اپنی جماعتوں میں چلے گئے۔ اس لڑکے نے جا کر بابو جی سے شکایت کی۔ اس کے دوستوں نے گواہی دی۔ بابو جی آگ بگولہ ہو گئے۔ بیت اٹھا میری طرف بڑھے۔ میں نے ڈانٹ کر کہا، ’’بس! اب ایک قدم آگے بڑھایا تو اچھا نہ ہوگا۔‘‘ بابوجی وہیں ٹھٹک کر رہ گئے۔ کہنے لگے، ’’تو ہم سے غدر کرتا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں غدر کرتا ہوں۔ آپ کو جو کچھ کرنا ہے قلم سے کیجئے۔ اگر ہاتھ اٹھایا تو ہاتھ توڑ ڈالوں گا۔‘‘ بابو جی منہ میں بڑ بڑاتے، بکتے، جھکتے، ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس پہنچے۔ وہاں جا کر خبر نہیں کیا سمجھایا بجھایا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب نے میرا نام مدرسے سے خارج کر دیا۔ لیجئے سر منڈاتے ہی اولے پڑے سچ ہے۔ یہ ایسی مصیبت تھی کہ اس کا حل کرنا میری طاقت سے باہر ہے۔ میں سیدھا ایجنٹ کے پاس پہنچا۔ انہوں نے کہا’’انھ یہ کیا بڑی بات ہے، ابھی نام داخل ہوا جاتا ہے۔‘‘ خیروہ مجھ کو لے کر مدرسے آئے، خود مدرسے کی دیوار پر بیٹھ گئے اور مجھ سے کہا، ’’دیکھو تین بجے ہیڈ ماسٹر صاحب پیخانہ جانے کے لئے اپنے کمرے سے نکلیں گے۔ وہ سامنے ان کا پیخانہ ہے۔ جب کرکٹ کے اس چھوٹے میدان کے بیچ میں پہنچیں اس وقت ان کا راستہ روک لینا۔ قلم دوات کاغذ اپنے پاس رکھو۔ جب تک ان سے اپنے داخلے کا حکم نہ لکھوا لو، اس وقت تک ان کو نہ چھوڑنا، اگر چھوڑ دیا تو تمام عمر داخل نہ ہو سکو گے۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپ خاطر جمع رکھئے اور دیکھتے رہیئے۔ میں حرف بحرف آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر میں بورڈنگ میں گیا۔ وہاں سے کاغذ قلم دوات لایا اور مدرسے کی دیوار پر اپنے محسن کے برابر ہو بیٹھا۔ تھوڑی دیر کے بعد چپراسی لوٹا لے کر نکلا، وہ پیخانے میں لوٹا رکھ کر واپس جا رہا تھا کہ اس کو میرے ایجنٹ نے پکارا۔ ان کی صورت دیکھے ہی وہ بھاگا ہوا آیا ور کہا، ’’حضور۔ آج آپ کہاں؟‘‘ انہوں نے میری طرف اشارہ کر کے کہا، ’’ان کے ایک کام سے آیا ہوں۔ آج ہیڈ ماسٹر صاحب کے پیخانہ تک کون جائے گا؟‘‘ چپراسی نے کہا، ’’میں۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’تم پیچھے رہ جاؤ، ہیڈ ماسٹر صاحب پکاریں بھی تو نہ جانا۔ خیر یہ کیوں کرو۔ میرے پاس کھڑے رہو جب میں کہوں اس وقت جانا۔‘‘ وہ بے چارہ وہیں کھڑا ہو گیا۔ اتنے میں ہیڈ ماسٹر صاحب اپنے کمرے سے نکلے۔ خوب پئے ہوئے تھے۔ جھومتے جھامتے آہستہ آہستہ جوں کی چال چلتے میدان میں آئے۔ وہ بیچ میدان میں پہنچے تھے کہ میں بھاگتا ہوا گیا اور ان کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگے، ’’بھئی تم کون ہو؟‘‘ میں نے کہا، ’’جناب میں اسی مدرسے میں ہوں۔ چھٹی جماعت میں پڑھتا ہوں۔ آج آپ نے بابو جی کے کہنے سے میرا نام خارج کر دیا ہے۔ میرا نام پھر داخل کرلیجئے، نہیں تو میری پڑھائی کا ستیا ناس ہو جائے گا۔‘‘ کہنے لگے، ’’اچھا بھئی۔ اب تو تم جاؤ، میں آ کر بابو جی سے پوچھوں گا۔ گھبراؤ نہیں۔ تمہارا نام داخل ہو جائے گا۔‘‘ میں نے کہا، ’’تو ابھی لکھ دیجئے۔‘‘ کہنے لگے، ’’جلدی کیا ہے۔ ابھی دو منٹ میں آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر ذرا کترا کر نکلنے لگے۔ میں نے ذرا ہٹ پھر ان کا راستہ روک دیا۔ اس پر انہوں نے ذرا غصہ ہو کر کہا، ’’تم بڑے شریر معلوم ہوتے ہو، جاؤ اب کبھی تمہارا نام اس مدرسے میں نہیں لکھا جائے گا۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ’’اگر نام نہیں لکھا جائے گا تو میں آپ کو یہاں سے ہلنے بھی نہیں دوں گا۔‘‘ انہوں نے چپراسی کو پکارا۔ بھلا چپراسی وہاں کہاں۔ وہ تو دوسری جگہ قید تھا۔ جب اندرونی دباؤ زیادہ پڑنے لگا تو ذرا نرم ہوئے اور کہنے لگے، ’’اچھا بھئی، میں ابھی لکھ دیتا مگر یہاں کاغذ قلم دوات کہاں رکھی ہے۔‘‘ میں نے جھٹ لکھنے کا سامان نکال کاغذ اور قلم ان کے ہاتھ میں دیا، دوات سامنے پیش کی۔ انہوں نے یہ لکھ کر کہ’اس دفعہ معاف کیا جاتا ہے نام داخل کر لیا جائے۔ آئندہ ایسا ہواتو پھر کبھی معاف نہ کیا جائےگا۔ ‘کاغذ قلم مجھے دے دیا۔ میں نے کہا، ’’جناب اب دو بارہ داخل ہونے کے لئے میں ایک روپیہ داخلہ فیس کہاں سے لاؤں؟‘‘ کہنے لگے، ’’تو پھر تم نہ دو گے تو کیا تمہاری طرف سے میں دوں گا۔‘‘ میں نے عرض کیا، ’’اگر ایک روپیہ عنایت ہو تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اندرونی حالت کچھ ایسی نہ گفتہ بہ ہو رہی تھی کہ انہوں نے زیادہ حجت کرنا خلاف مصلحت سمجھا۔ جیب سے ایک روپیہ نکال میرے ہاتھ میں رکھا اور سمجھے کہرسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشتمیں کاغذ لے سیدھا ہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرے میں پہنچا۔ وہاں جو منشی جی تھے ان کو دیا۔ اپنا نام لکھوا جماعت میں آ بیٹھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب تو پیخانے سے واپس آتے آتے سب کچھ گئے۔ ہاں بابوجی ضرور کچھ رنگ لاتے۔ ان کا کفر میرے استاد نے توڑ دیا۔ آ کر کہا بابو جی یہ میرا بھائی ہے۔ اگر اس کے خلاف آپ نے کچھ کیا تو میں آپ کی خدمت میں پھر حاضر ہو ں گا۔ یہ تو مدرسے سے نہیں نکلے گا۔ ہاں آپ کو اپنا بوریا بدھنا سنبھالنا پڑے گا۔‘‘ بابو جی کے منہ سے بس یہی نکلا، ’’آبا۔ با۔ با۔ با۔ با۔ ظلم۔ ظلم۔ تو گیا۔ تیرا بھائی آ گیا۔‘‘ اس کے بعد بابو جی کی ہمت نہ ہوئی کہ میرے خلاف کوئی کارروائی کرتے۔ مارنا کجا، سختی سے کچھ بولنے سے بھی گھبراتے تھے۔ یہاں تک دب گئے تھے کہ ایک دن خود ان کے لڑکے کو میں نے ٹھوک دیا تو مجھ ہی کو بلا کر کہنے لگے، ’’بابا تونے مارا۔ اچھا کیا۔ تیرا بھائی ہے۔ اب نہ ماریو۔‘‘۔ بہر حال میرے جماعت میں دوبارہ آ جانے کے بعد ان میاں چغل خور میں کیا دم تھا جو مدرسے میں ٹکتے۔ دوسرے تیسرے روز ہی نام کٹوا دوسرے مدرسے میں داخل ہو گئے۔ چلو خس کم جہاں پاک۔ ان تمام باتوں کا یہ اثر ہوا کہ میں بھی اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگا۔ اور دوسرے لڑکے بھی جان گئے کہ یہ پلپلا لونڈا نہیں ہے۔ اگر کچھ سر اٹھایا تو ٹھوک ہی دے گا۔ میں نے مدرسے میں حکومت ضرور کی مگر خدا بہتر جانتاہے کہ میری شرارت نے میری شرافت کو کبھی نہیں دبایا۔ گڑ بڑ ہمیشہ مچائی مگر شرافت کا پہلو کبھی نہیں چھوڑا۔ اور یہ ہمیشہ پیش نظر رکھا کہ صرف شرارت کرنے ہم یہاں نہیں آئے ہیں، کچھ پڑھنے بھی آئے ہیں۔ اگر کسی مدرسے میں باغ ہو تو سمجھ لو کہ باغ کی بھی تباہی ہے اور باغبانوں کی بھی تباہی۔ یہی چیز مدرسے میں سب سے بڑا جھگڑے کا جھونپڑا ہوتی ہے۔ ہمارے مدرسے کے سامنے جو قطعہ تھا، اس میں ہزار ہا امردود کے درخت اور کرکٹ کے میدان سے ملا ہو اجو حصہ تھا اس میں سینکڑوں آم کے درخت تھے۔ میدان کی لمبان میں شہتوت ہی شہتوت لگے ہوئے تھے۔ یہ سارے کا سارا باغ ٹھیکے پر دیا جاتا تھا۔ کوئی دن نہ جاتا ہوگا جو باغبانوں اور لڑکوں میں مار پیٹ نہ ہوتی ہو۔ لڑائی کا یہ طریقہ تھا کہ سلطان وقت کمانڈر ان چیف بنتے اور دس دس بارہ بارہ لڑکوں کی ٹولیاں بنا کر چاروں طرف سے باغ کو گھیر لیتے۔ سیٹی بجی اور ایک ٹولی امرود کے کسی درخت پر گری۔ باغبانوں نے ادھر کا رخ کیا۔ ادھر ان کا منہ پھرا اور دوسری سیٹی بجی۔ سیٹی کا بجنا تھا کہ دوسری ٹولی نے دوسرے تختے پر چھاپہ مارا۔ کچھ باغبان ادھر رہے کچھ ادھر آئے کہ تیسرے پہلو سے حملہ ہوا۔ غرض تھوڑی سی دیر میں اودھم مچ گیا۔ جب دیکھا کہ فوج دب رہی ہے یا کافی مال غنیمت ہاتھ آ چکا ہے تو اس وقت واپسی کا بگل بجا۔ سب حملہ آور امرود جھولیوں میں بھرے ایک جگہ جمع ہوئے۔ کچے امرود پھینک دیے گئے۔ پکے پکے سب میں برابر تقسیم ہوگئے۔ ضرر رسیدوں کی مرہم پٹی کی گئی، اور دو ایک روز کے لئے لڑائی موقوف ہوئی۔ پھر ذرا ا مرود گدرائے اور پھر دوسرے حملے کی تیاری ہوئی۔ مجھے لڑکوں کا یہ جوش تو بہت پسند تھا اور لڑانے میں مزا بھی بہت آتا تھا مگر غریب باغبانوں کے نقصان سے رنج ہوتا تھا۔ شروع عہد حکومت میں چند حملے تو میں نے کئے لیکن پھر اس لوٹ کھسوٹ سے دل بیزار ہو گیا۔ آخر ایک تجویز سوجھی۔ چند ذرا کھاتے پیتے لڑکوں کو بلا کر کونسل کی اور کہا، ’’بھائیوں ان حملوں کو تو روکنا اچھا نہیں کیونکہ اس سے ہم طالب علموں میں جرأت بڑھتی ہے۔ جوش بڑھتا ہے اور پٹنے پٹانے کی مشق بھی ہو جاتی ہے مگر ان بچارے باغبانوں کا دیوالہ نکل جاتا ہے۔ غریب پٹتے بھی ہیں اور رقم کا نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ ان لوگوں سے کچھ سمجھوتہ کر لیا جائے۔ ہم حملہ کریں۔ یہ مقابلہ کریں، آخر میں جو ان کا نقصان ہو وہ ہم آپس میں چندہ کر کے ادا کر دیں۔ ایک صاحب بڑے منطقی تھے۔ کہنے لگے، ’’جناب اگر یہ بد معاش سارا باغ لٹوا کر ہم سے پیسے مانگ بیٹھیں تو کیا ہو۔ لڑنے کا لطف نہ آئے اور پیسے مفت جائیں۔‘‘ بات واقعی معقول تھی۔ سب نے تائید کی۔ آخر بہت کچھ بحث مباحثے کے بعد یہ طے پیایا کہ اگر باغبان جیسا اب کرتے ہیں، ویسا نہ کریں تو ایک پیسے کے حق دار نہیں۔ ہاں پوری لڑائی کے بعد جو نقصان ہوگا وہ ادا کر دیا جائےگا۔ مدرسے بھر سے یہ تجویز پوشیدہ رکھنے کا عہد لیا گیا اور ملک کو بلا کر سب کچھ سمجھا دیا گیا۔ لڑکے جب حملہ کرتے تو یہ سمجھتے کہ ہم مالیوں کا مال لوٹ رہے ہیں۔ مالی یہ سمجھتے کہ ہمارا مالی نقصان ہو رہا ہے اس لئے کسی نہ کسی طرح ان لڑکوں کو باغ سے نکالنے کی کوشش کرتے۔ ملک سمجھتا کہ جو نقصان ہوگا وہ مجھ کو مل جائے گا۔ اس طرح لڑائی ہوتی اور خوب ہوتی۔ آخر میں ملک سے جب حساب ہوتا تو زیادہ سے زیادہ آٹھ دس آنے پیسے دینے پڑتے۔ آپس میں ایک ایک دو دو آنے چندہ کیا، دے دیے۔ اگر کسی لڑکے نے بلا وجہ کچے امردو توڑے یا بلا ضرورت درختوں کو ہلا ہلا کر امردوں کا ستیا ناس کیا تو اس پر جرمانہ ہو گیا اور آئندہ کے لیے کچھ عرصے تک اس کو حملہ آوروں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا۔ آم کے درخت اونچے تھے۔ وہاں جو حملہ ہوتا وہ پتھروں سے ہوتا۔ وہ زنازن پتھر چلتے کہ خدا کی پناہ۔ مالیوں کے پاس گوپن تھے، ان سے لڑکوں کی خبر لیتے۔ گوپن سے پتھر چلا اور لڑکے درختوں کی آڑ میں ہوئے۔ پتھر کسی درخت کے تنے پر کھٹ سے بیٹھا اور پھر حملہ شروع ہوا۔ لطف تو اس وقت آتا تھا جب کوئی زرد زرد آم ٹپ سے گرتا تھا۔ ادھر سے لڑکے بڑھتے اور ادھر سے مالی۔ اب نہ لڑکے آم تک جا سکتے ہیں اورنہ مالی صاحب۔ پینترے کٹ رہے ہیں۔ اس درخت کے پیچھے سے نکلے، اس درخت کے پیچھے جا چھپے۔ کوئی مالی ہمت کر کے ذرا سامنے آیا اور پتھر پڑا۔ اسی طرح چھپتے چھپاتے بچتے بچاتے آم تک پہنچ ہی جاتے۔ آپ پر کسی کا ہاتھ پڑا اور آم غائب ہوا۔ گیند کی طرح ہاتھوں ہاتھ کہیں کا کہیں پہنچ جاتا۔ شہتوت کا معاملہ ان سب سے مختلف اور مشکل تھا۔ درخت نہ اتنے پتلے تھے کہ ان کو ہلا کر شہتوت جھاڑ سکیں اور نہ اتنے نیچے تھے کہ ہاتھ سے توڑ سکیں۔ جو شہتوت زمین پر گر جاتے وہ کھانے کے قابل نہ رہتے۔ اس لئے درختوں پر چڑھ کر اور وہیں توڑ کر کھانا پڑتا۔ جب دیکھو کوئی نہ کوئی لڑکا کسی نہ کسی درخت پر ٹنگا ہے۔ ان درختوں کی رکھوالی پر کوئی باغبان نہ رہتا تھا۔ کرکٹ کے میدان کے دوسری طرف آموں کے درختوں کے نیچے ان کی جھوپڑیاں تھیں۔ جہاں انہوں نے دیکھا کہ کوئی لڑکا کسی درخت پر چڑھا اور ان میں سے کوئی نہ کوئی لپکا۔ اس کے میدان پار کرتے کرتے لڑکے نے اچھی طرح اپنا پیٹ بھر لیا۔ یہ قریب آیا اور لڑکا درخت پر سے کود یہ جا وہ جا۔ سامنے سڑک تھی۔ سڑک پر کیا پہنچے کہ سرحد پار ہو گئے۔ باغبان اس کا پیچھا چھوڑ درختوں کے نیچے آکھڑا ہوا۔ لڑکا کہیں ادھر ادھر چھپا رہا۔ ادھر یہ بلا دفع ہوئی اور ادھر وہ لڑکا پھر درخت پر آ موجود ہوا۔ غرض شہتوت کے درختوں کا تو برائے نام ہی ٹھیکہ تھا۔ اللہ کے فضل سے سارے شہتوت لڑکے ہی کھا کھا درختوں کو خالی کر دیتے۔ ان ہی دن رات کی لڑائیوں نے ہمارے مدرسے کے لڑکوں کواتنا ہمت والا کر دیا تھا کہ کسی دوسرے مدرسے والوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ میں مڈل میں تھا کہ ایک مدرسے سے بڑا زبر دست مقابلہ ہو گیا۔ ہمارے مدرسے سے شہر کو جانے کے لئے ریل کے پل پر سے گذرنا پڑتا تھا۔ ایک دوسرا بڑا مدرسہ شہر میں تھا۔ وہاں کے لڑکوں کو اپنے بورڈنگ ہاؤس آنے کے لئے اس پل کو دوسری طرف سے عبور کرنا ہوتا۔ دونوں مدرسوں میں ایک ہی وقت چھٹی ہوتی اور لڑکوں کی یہ مخالف روئیں اکثر پل کے بیچ میں ملتیں۔ کبھی کبھی کچھ نوک جھوک بھی ہو جاتی۔ مگر باقاعدہ لڑائی کی نوبت نہ آتی۔ خدا معلوم یہ اتفاق تھا یا شرارت کہ ایک دن ان لوگوں نے ہمارے مدرسے کے ایک لڑکے کی ٹوپی پل پر اتار فٹ بال بنا دی۔ ٹوپی پل کے نیچے جا پڑی۔ اس لڑکے نے آ کر مجھ سے شکایت کی۔ یہ مدرسے کی عزت کا معاملہ تھا۔ فوراً کونسل آف وار ہوئی۔ پچیس تیس لڑکوں کی ایک پلٹن مخالفین کی تنبیہہ کے لیے بنائی گئی۔ صبح کے مدرسے تھے۔ بارہ بجے چھٹی ہوئی اور پل کے عین وسط میں دشمنوں پر ہلہ بول دیا گیا۔ وہ اس حملے کے لئے بالکل تیار نہ تھے۔ بری طرح پٹ گئے۔ دوسرے دن اس مدرسے کے ہیڈ ماسٹر ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس آئے۔ دونوں انگریز تھے۔ اس لئے ڈر ہوا کہ کوئی آفت نہ آ جائے۔ جب وہ چلے گئے تو صاحب نے مجھ کو بلایا۔ واقعہ پوچھا۔ میں نے صحیح صحیح حال کہہ دیا۔ کہنے لگے، ’’میں تمہاری کارروائی سے بہت خوش ہوا۔ ابھی صاحب سے میں نے کہہ دیا ہے کہ میں ایسی باتوں سے اپنے مدرسے کے لڑکوں کو نہیں روک سکتا۔ اپنے مدرسے والوں سے کہہ دو کہ اگر ہمت ہے تو مقابلہ پر آئیں، نہیں تو پل کے نیچے کھڑے رہیں۔ جب ہمارا مدرسہ گذر جائے اس وقت پل پر قدم رکھیں اور دیکھو میں تم سے کہے دیتا ہوں کہ ا گر پٹ کر آئے تو مدرسے سے نکال دوں گا۔ لڑو او ر خوب لڑو۔ ہارے تو مجھے منہ نہ دکھانا۔‘‘ ہیڈ ماسٹر کے اتنے کہنے نے ہم کو اور شیر بنا دیا۔ اس وقت سارے لڑکے جمع ہوئے، باقاعدہ فوج مرتب ہوئی، عہدے تقسیم ہوئے، حملے کی ترتیب قائم ہوئی۔ بارہ بجے چھٹی کا گھنٹہ بجا، اور مدرسے کے دروازے سے سلسلے وار فوج نکلنی شروع ہوئی۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ ا س وقت وہ نقشا میری آنکھوں میں پھر رہا ہے۔ لڑکوں میں وہ جوش تھا کہ بیان نہیں ہو سکتا۔ آگے آگے ہر دستے کے افسر تھے۔ سامنے مضبوط مضبوط لڑکے، ان کے پیچھے ذرا کمزور لونڈے۔ مگر کمزوروں کا بھی یہ حال تھا کہ بپھرے جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ سیلاب پل کی طرف بڑھا اور اس طرح بڑھا کہ پل پر چلنے کا راستہ بالکل بند کر دیا۔ لڑائی کا یہ نقشا قائم کیا گیا تھا کہ پہلے دشمنوں کو دھکیل کر پل کے اس طرف اتار دیا جائے جدھر سے وہ آئے ہیں کیونکہ پل بہت پتلا اور بہت اونچا تھا۔ ڈر تھا کہ کوئی اس لڑائی میں نیچے نہ جا گرے۔ سب سے آگے میں اور میرے دو کپتان تھے۔ ہم کوئی آدھے پل تک پہنچے ہوں گے کہ دوسرے مدرسے والے بھی پوری تیاری کےساتھ پل کے دوسرے کنارہ پر نمودار ہوئے۔ ہم نے ترتیب کے ساتھ ذرا قدم بڑھایا کہ پل کے کنارے ہی پر ان کو روک دیں۔ وہ پل کے کوئی بیس، پچیس قدم ادھر آئے ہوں گے کہ دونوں فوجیں بالمقابل ہو گئیں۔ میں آگے بڑھا ور کہا، ’’دیکھئے حضرت! لڑائی کی ابتدا پرسوں آپ نے کی ہے اگر آپ معافی مانگ لیتے ہیں تو لڑائی ابھی ختم ہو جاتی ہے نہیں تو فیصلہ قسمت کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ ان کے ایک کالے سے ماسٹر سامنے آئے اور کہنے لگے کہ، ’’یہ سرکاری پل ہے، اس کو روکنے کا آپ کو کوئی حق نہیں ہے۔ ہم پولیس میں رپورٹ کر دیں گے۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپ شوق سے پولیس میں جائیے مگر آپ کے پولیس میں جانے سے پہلے آپ کی یہ دستار مبارک پل کے نیچے جاتی ہے۔‘‘ میں نے یہ کہہ کر ان کی پگڑی اچھال دی۔ اور وہ تھوڑی ہی دیر میں ٹھوکریں کھاتی خدا جانے کہاں کی کہاں پہنچ گئی۔ اب کیا تھا دونوں فریق لڑنے کا ارادہ کر کے پہلے سے آئے تھے۔ اتنی سی کارروائی آگ لگا دینے کے لئے بہت کافی تھی۔ بس چل گئی۔ وہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے اور ہم پیچھے ہٹانے کی۔ ہاتھا پائی کا دونوں میں سے کسی کو خیال بھی نہ تھا۔ صرف فٹ بال کے نمونوں کے حملے ہو رہے تھے۔ کوئی دس منٹ کی دھکا پیل کے بعد دشمن نے جگہ چھوڑی۔ اس کا جگہ سے ہٹنا تھا کہ پیچھے سے ریلا پڑا، ا ور ریلے کے ساتھ ہی ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ پل سے اتر کر انہوں نے سڑک پر پھر پرا جمایا۔ اور باقاعدہ جنگ شرو ع ہوئی۔ مکے بھی چلے، کشتیاں بھی ہوئیں، ہاتھا پائی بھی ہوئی، غرض ساری سڑک میدان جنگ بن گئی۔ تعداد سے دیکھا جائے تو وہ لوگ ہم سے کہیں زیادہ تھے لیکن تعداد ایک جدا چیز ہے اور ہمت اور استقلال دوسری چیز۔ پندرہ بیس ہی منٹ میں دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے اور سب اسی طرح بے تحاشا بھاگے کہ بہت سی کتابیں، جوتے اور ٹوپیاں وہیں چھوڑ گئے۔ مال غنیمت جمع کیا گیا۔ زخمیوں کی دیکھ بھال ہوئی اور سب ایک فتح مندانہ جوش کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔ ہاں یہ کہنا بھول گیا۔ ادھر تو لڑکوں میں مقابلہ ہو رہا تھا اور ادھر دونوں مدرسوں کے ماسٹروں میں لڑائی شرو ع ہو گئی۔ ہمارے تھرڈ ماسٹر صاحب بڑے تگڑے تھے، کشتی بھی جانتے تھے۔ ان کا مقابلہ ایک بڑی لمبی ڈاڑھی والے ماسٹر سے ہو گیا۔ خیر انہوں نے اس بچارے کو جو پٹخنے دیے، سو دیے۔ اس لپاڈ کی میں اس کی آدھی ڈاڑھی بھی نوچ لائے اور یہ ڈاڑھی مال غنیت کا یک جز قرار پائی۔ دوسرے روز صبح کو ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھے بلایا اور لڑائی کا حال پوچھا۔ میں نے تمام واقعات از الف تا ے ان سے بیان کر کے جو مال اس جنگ میں ملا تھا، سامنے رکھ دیا۔ ڈاڑھی کو دیکھ کر وہ بہت ہنسے اور ان سب چیزوں کو ایک چٹھی کے ساتھ اس مدرسے کے ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس بھیج دیا۔ ہم کوبہت کچھ شاباشی دی اور ہم سمجھے کہ چلو چھٹی ہوئی۔ اس روز جو ہم پھر اسی طرح فوج کا سلسلہ قائم کر کے پل پر آئے تو کسی مخالف کو وہاں نہ پایا۔ معلوم ہوا کہ وہاں والوں کو ہدایت کردی گئی ہے کہ جب تک ہمارا مدرسہ پل سے نہ گزر جائے اس وقت تک پل پر قدم نہ رکھیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ شرافت کی کہ پولیس میں اس واقعے کی رپورٹ کر دی۔ لڑائی کے شاید چوتھے روز اس مدرسے کے ہیڈ ماسٹر ہمارے مدرسے میں آئے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب ان کے ساتھ تھے۔ آتے ہی دونوں کے دونوں ہمارے ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں گئے۔ وہاں بڑی دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ہم سب کو اور خاص کر تھرڈ ماسٹر صاحب کو بڑی تشویش تھی کہ دیکھئے اب کیا ہوتا ہے کوئی گھنٹے پون گھنٹے کی گفتگو کے بعدمیری اور میرے دو تین ساتھیوں کی طلبی ہوئی اور جاتے ہی ڈپٹی کمشنر صاحب نے سوال کرنے شروع کر دیے۔ میں نے جو کچھ واقعہ ہوا تھا بے کم و کاست بیان کر دیا۔ ڈپٹی کمشنر صاحب ہنستے اور مسکراتے رہے۔ آخر میں اس مدرسے کے ہیڈ ماسٹر کہنے لگے، ’’مسٹر! کیا اگر یہی لڑائی ولایت کے دو مدرسوں میں ہوتی تو اس کی رپورٹ پولیس میں کی جاتی اور کیا اس طرح فوج داری مقدمہ چلانے کی استدعا کی جاتی۔ اس کا آپس میں تصفیہ ہو جائے تو بہترہے۔‘‘ ہمارے کپتان صاحب بولے، ’’صاحب اس طرح تصفیہ نہیں ہوگا۔ پہلے یہ ہار مان لیں، اس وقت ہم ان کو چھوڑ دیں گے۔ ہمارا مدرسہ کسی سے دب کر ہرنے والا نہیں ہے۔‘‘ ان کے جوش پر سب ہنس پڑے اور ہم سے کہا گیا کہ اب تم لوگ جاؤ۔ ہم چلے آئے۔ معلوم نہیں کہ آپس میں کیا باتیں ہوئیں۔ آخر یہ قرار پایا کہ جب تک ہمارا مدرسہ پل پر سے نہ گذر جائے، اس وقت تک دوسرے مدرسے والے پل کے دوسری طرف لین باندھے کھڑے رہیں۔ ہم جب ان کے پاس سے گذرتے تو اس شان سے اینٹھتے ہوئے گویا ایک فاتح قوم ایک مفتوح قوم کو نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہوئی گذر رہی ہے۔ کچھ دنوں یہی رنگ رہا۔ اس کے بعد ٹورنمنٹ کے زمانے میں آپس میں میل ملاپ ہو گیا۔ اب کبھی کبھی اس لڑائی کا خیال آتا ہے اور سوچتا ہوں کہ اگر اسی طرح کی پھر کوئی جنگ ہو جائے تو تعزیرات کی دفعہ 147 کاخیال آتے ہی انشاء اللہ سب سے پہلے میں وہاں سے بھاگوں۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب کا رنگ تو آ پ نے دیکھ لیا۔ اب ان کی پڑھائی کا ڈھنگ بھی ملاحظہ ہو۔ ان کا خیال تھا کہ وہ طالب علم ہی نہیں جس کے پاس ڈکشنری اور اٹیلس نہ ہو۔ جماعت میں گھستے ہی پہلا کام ان کا یہی ہوتا تھا کہ ہر لڑکے کے پاس یہ دونوں چیزیں دیکھ لیں۔ میں حلف لینے کو تیارہوں کہ میں نے ان سے دو سال تک پڑھا اور کبھی یہ چیزیں نہیں خریدیں۔ لطف یہ ہے کہ کبھی صاحب کو پتہ نہیں چلا کہ میں دوسروں سے ڈکشنری اور اٹیلس لے کر کام چلا رہا ہوں۔ ہوتا یہ تھا کہ صاحب نے ایک سرے سے تنقیح کرنی شروع کی۔ اور وہ کتابیں ایک سے دوسرے پر کمر کے پیچھے ہی پیچھے منتقل ہونی شروع ہوئیں۔ شاید ہی کوئی بد قسمت لڑکا ہوتا ہوگا جس کے پاس ان کویہ دونوں چیزیں موجود نہ ملتی ہوں۔ اور مزا یہ تھا کہ پچاس ساٹھ لڑکوں کی جماعت میں صرف دس یا گیارہ کے پاس یہ کتابیں تھیں۔ بہر حال اپنا اطمینان کرنے کے بعد انہوں نے پڑھانا شروع کیا۔ جغرافیہ خوب پڑھاتے تھے اور بورڈ پر چاک سے نقشا تو ایسا بناتے تھے کہ ہاتھ چوم لینے کو جی چاہتا تھا۔ اب رہی انگریزی تو وہ ان کی مادری زبان تھی لیکن پڑھانے میں ولایت کا ذکر حد سے زیادہ کرتے تھے۔ جب کوئی مثال دیتے تو انگریزوں ہی کی مثال دیتے۔ ایک دن ایک صاحب زادے صاحب ان سے سوال کر بیٹھے کہ صاحب آپ ولایت کا تو اتنا ذکر کرتے ہیں، کبھی آپ ولایت گئے بھی ہیں یا نہیں۔ کیا کہوں یہ سن کر ان کو کتنا غصہ آیا۔ اور غصہ آنے کی وجہ بھی تھی۔ کیونکہ یہ دیسی صاحب تھے۔ یعنی تھے تو ولایتی ماں باپ کے بیٹے مگر ہندوستان ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ ہندوستان ہی میں پرورش پائی تھی اور آخر ہندوستان ہی میں مرے۔ سوال کا جواب تو کیا دیتے، ہاں ہوا یہ کہ غصہ کے مارے جماعت سے باہر نکل گئے اور برابر گھنٹہ بھر باہر ٹہلتے رہے۔ ان کے غصے کی کچھ نہ پوچھو۔ ہر وقت ناک پر دھرا رہتا تھا۔ مدرسے سے ملا ہوا ہی باغ تھا۔ جانور آتے، درختوں پر بیٹھتے اور چہچہاتے تھے۔ ان کے نازک دماغ پر جانوروں کا بولنا گراں گذر تا تھا۔ دو چپراسی ان جانوروں کے اڑانے پر متعین تھے۔ ایک روڑے جمع کرتا، دوسرا پتھر مارنے کو تیار بیٹھا رہتا۔ ادھر کوئی جانور درخت پر آکے بیٹھا اور ادھر اس نے پتھر مارا۔ اگر کہیں خدا نخواستہ کوئی جانور کسی درخت پر بول گیا تو چپراسیوں کی شامت آ گئی۔ صاحب اس قدر غل مچاتے کہ خدا کی پناہ۔ برا بھلا کہا، جرمانہ کیا ا ور زیادہ غصہ آیا تو کسی نہ کسی چپراسی کو معطل کر دیا۔ غرض ان چپراسیوں کا صاحب کے ہاتھ سے ناک میں دم تھا۔ انہوں نے لڑکوں کو مارنے کا طریقہ مدرسے میں بالکل مسدود کر دیا تھا۔ ممکن نہ تھا کہ کوئی ماسٹر کسی لڑکے پر ہاتھ اٹھا سکے، البتہ ڈکار لینے سے ان کو سخت نفرت تھی۔ آپ جانتے ہیں جو لوگ ماش کی دال کھائیں وہ ڈکار نہ لیں تو اور کیا کریں۔ باسی ماش کی دال کھانے والے لڑکے جماعت میں بہت سے تھے۔ جہاں کسی نے ڈکار لی اور انہوں نے آ کرمنہ پر کتاب ماری۔ لڑکوں میں مستعدی پیدا کرنے کے لئے ان کی جماعت میں بنچ ذرا دیوار سے ہٹا کر بچھا دیےگئے تھے تاکہ کوئی لڑکا دیوار کا سہار ا نہ لے سکے۔ ایک دن یہ ہوا کہ یہ جماعت میں ٹہلتے ہوئے پڑھا رہے تھے۔ ایک لڑکے کے پاس سے جو گذرنے لگے تو اس کو اسی وقت ڈکار آئی اور اس نے ’’ہاڈ‘‘ کر کے ایسا بڑا منہ کھولا کہ حلق کا کوا بھی دکھائی دینے لگا۔ صاحب نے اسی طرح ٹہلتے ٹہلتے اس کے منہ پر کتاب ماری۔ وہ بچارہ اپنی ڈکار کی دھن میں ذرا ڈھیلا بیٹھا تھا۔ بنچ پر سے قلا بازی کھا کر نیچے جا پڑا لیکن ان حضرت نے کچھ پروا نہ کی۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ کہیں ٹھاہ بے ٹھاہ چوٹ تو نہیں لگ گئی۔ اس طرح پڑھانے میں مشغول رہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ صبح کا جب مدرسہ ہوتا ہے تو اکثر لڑکے پنجوں پر بیٹھے اونگھا کرتے ہیں۔ صاحب بہادر کو ان کی یہ حرکت بہت نا پسند تھی۔ جہاں دیکھا کہ کوئی لڑکا ذرا اونگھ رہا ہے اور انہوں نے چپراسی کو آواز دے کر حکم دیا کہ اس لڑکے کو لے جا کر کرکٹ فیلڈ کے پانچ چکر دلاؤ، پانچ چکر دینے کے معنی یہ سمجھو کہ پورا سو میل ہو گیا۔ ان چکروں کے بعد جو یہ لڑکا آتا تو بالکل ’’پٹخن‘‘ ہوتا۔ میں نے اوپر کہا ہے کہ مارتے بالکل نہ تھے مگر ایک لڑکے کو انہوں نے ایسا مارا ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ ہوا یہ کہ کہ انٹرنس کلاس میں ایک لڑکا تھا اور بڑا ہوشیار تھا مگر خدا جانے کیوں اس کو مدرسے سے بھاگنے کا مرض پڑ گیا تھا۔ گھر سے کہہ کر آتا کہ مدرسے جا رہا ہوں اور خبر نہیں سارے دن کہاں رہتا۔ آخر یہ ہوا کہ نام کٹ گیا۔ نام کٹنے کی خبر اس کے والد کو دی گئی۔ وہ ایک دن اپنے صاحب زادے کو لے کر ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس آئے اور کہا، ’’سرکار یہ تو روز مدرسے آتا ہے، پھر اس کا نام کیوں کاٹ دیا گیا۔‘‘ صاحب نے رجسٹر منگا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک دو دن نہیں پورے تین مہینے سے مدرسے سے غائب ہے۔ جب ڈانٹ ڈپٹ ہوئی تو یہ حضرت بھی قبولے۔ صاحب نے ان کے باپ سے پوچھا کہ اب آپ اس کو سزا دیتے ہیں یا میں دوں۔ اس بچارے نے کہا کہ آپ ہی دیجئے۔ کہا کہ کل صبح اس کو لے کر آؤ۔ اس کے جانے کے بعد صاحب نے ایک بیت منگوائی۔ رات بھر اس کو ناند میں ڈبو کر رکھا۔ صبح کو وہ لڑکا ا ور ان کے والد صاحب پھر آئے۔ تمام اسکول جمع کیا گیا۔ ان صاحب زادے کو بینچ پر اوندھا لٹا کر باندھ دیا گیا۔ اور اس کے بعد جو میرے شیر نے بیت لے کر سوتنا شروع کیا ہے تو بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کو جان سے مارے بغیر نہ چھوڑے گا۔ سارے لڑکوں کا یہ حال تھا کہ کانپ رہے تھے۔ ماسٹروں کے ہوش پر ان تھے۔ آخر جب وہ بے ہوش ہی ہو گیا، اس وقت کہیں جا کر انہوں نے ہاتھ روکا۔ مگر صاحب اس لڑکے کا باپ بھی اس بلا کا تھا کہ کیا کہوں۔ دیکھ رہا تھا کہ بچے کا دم نکلے جاتا ہے اور کہے جاتا تھا کہ مارو اور مارو۔ ایسے بد معاش کی یہی سزا ہے۔ اس مار کے کہیں پندرہ روز کے بعد وہ بچارہ اس قابل ہوا کہ مدرسے آئے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب سے خود میرے دو مقابلے ہوئے۔ میں ایک میں جیتا اور ایک میں یہ جیتے۔ پہلا واقعہ تو یہ ہے کہ انہوں نے ایک سال حکم حاصل کر لیا کہ گرمیوں میں صبح مدرسہ نہ کیا جائے۔ لڑکوں نے خوشامدیں کیں، ماسٹروں نے بہت کچھ کہا مگر ہمارے صاحب بہادر کیا ماننے والے تھے۔ ا ٓخر جب کچھ بن نہ پڑی تو اسٹرائک کی سوجھی۔ یہ 1900ء کا واقعہ ہے۔ اس زمانے میں اسٹرائک کو کوئی جانتا بھی نہ تھا۔ میں اس زمانے میں نویں جماعت (پری میٹرک) میں پڑھتا تھا۔ میں نے اپنی جماعت کے سارے لڑکوں کو جمع کر کے کہا کہ کل اگر کوئی مدرسے آیا تو میرے سے برا کوئی نہیں۔ کل ساڑھے نو بجے سب کی حاضری کمپنی باغ میں لی جائے گی۔ اس تجویز کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ دوسرے دن اول وقت کے تین گھنٹے ہیڈ ماسٹر صاحب کےتھے۔ سارے مدرسے کی حاضری انہی کے کمرے کے سامنے لڑکوں کو لین سے کھڑا کر کے ٹھیک دس بجے لی جاتی تھی۔ اس روز جو سب جمع ہوئے تو پوری کی پوری ایک جماعت غائب۔ تمام مدرسے میں غل مچ گیا۔ صاحب کو خبر ہوئی، وہ بھی کمرے سے نکل کر باہر آئے۔ ماسٹروں سے پوچھا کہ نویں جماعت کہاں ہے۔ سب نے لا علمی ظاہر کی۔ ایک ماسٹر صاحب نے کہا کہ میں نے تیس چالیس لڑکوں کو کمپنی باغ کے کنوئیں پر بیٹھے دیکھا ہے۔ یہ سن کر صاحب کمرے میں چلے گئے۔ اب ہماری سنئے۔ ہم لوگ نو بجے سے باغ میں جمع ہونے شرو ع ہوئے۔ ایک آیا۔ دو آئے۔ تین آئے۔ غرض ساڑھے نو بجے تک پورے انچاس لڑکے جمع ہو گئے۔ جب یہ اطمینان ہو گیا کہ جماعت بھر کا کوئی لڑکا مدرسے نہیں گیا ہے تو اس کے بعد فٹ بال شروع ہوئی۔ ساڑھے گیارہ بجے تک یہ شغل رہا۔ جب اس سے بھی فراغت پائی تو خیال آیا کہ اب کیا کریں۔ سب نے کہا چلو اب مدرسے چلیں۔ غرض سب کے سب لائن باندھے، غل مچاتے مدرسے آئے۔ ابھی صاحب کا یک گھنٹہ باقی تھا۔ تصفیہ طلب یہ امر تھا کہ کون جماعت میں پہلے جائے۔ سب نے مجھ سے کہا کہ حضرت یہ مصیبت آپ ہی کی لائی ہوئی ہے، پہلے آپ ہی جائیے خیر میں بھی جی کڑا کر کے کمرے میں گھس ہی گیا۔ صاحب بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔ میں آہستہ آہستہ قدم ڈالتا اپنی سیٹ تک آیا اور بیٹھ گیا۔ دوسرے لڑکے سامنے کی کھڑکی میں سے یہ جھانک رہے تھے۔ جب یہ دیکھ لیا کہ میں اپنی جگہ جا بیٹھا اور صاحب نے کچھ نہیں کہا تو دوسرے صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور میرے برابر آ بیٹھے۔ غرض اسی طرح کوئی ساتھ آٹھ منٹ میں پوری جماعت اندر آ گئی۔ صاحب بھی کن انکھیوں سے یہ تماشا دیکھتے رہے۔ جب سارے پنچ بھر گئے تو انہوں نے قلم ہاتھ سے رکھا۔ جماعت پر ایک نظر ڈالی۔ اور پوچھا، ’’سب آ گئے۔‘‘ میں نے کہا، ’’جی ہاں!‘‘ پوچھا، ’’کس مضمون کا گھنٹہ ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’جغرافیہ کا۔‘‘ انہوں نے میز کی دراز کھول جغرافیہ نکالا۔ اپنی کرسی سے اٹھے اور ٹہل ٹہل کر اس طرح پڑھانے لگے گویا کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ گھنٹہ ختم ہونے کے بعد جب جماعت چلنے لگی تو مجھ سے کہا، ’’تم ٹھہر جاؤ۔‘‘ میں سمجھا کہ میاں فرحت آج خیر نہیں۔ وہ مار پڑے گی کہ ساری حکومت ناک کے رستے نکل جائے گی۔ کبھی سوچتا کہ بھاگ جاؤں کبھی خیال آتا کہ نہیں۔ جب دوسروں کو مصیبت میں ڈالا ہے تو یہ شرافت سے بعید ہے کہ وقت پر دغا دی جائے۔ صاحب اگر ہاتھ اٹھائیں تو تو بھی مارنے مرنے کو تیار ہو جا۔ دو ماریں گے تو کم سے کم ایک تو کھائیں گے۔ بہر حال میں اسی دھیڑ بن میں تھا کہ صاحب کرسی پر جا بیٹھے اور مجھ سے کہا کہ پاس آؤ، میں قریب گیا لیکن اتنے قریب بھی نہیں کہ میرا ہاتھ پکڑ سکیں۔ دل کہتا تھا کہ اب جنگ ہوئی لیکن بجائے اس کے کہ وہ ہاتھ پکڑ نے کا ارادہ کرتے نہایت نرم آواز میں بولے کہ، ’’اب تک تم کہاں رہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’کمپنی باغ میں۔‘‘ کہا، ’’کیوں؟‘‘ میں نے کہا، ’’دیکھئے صاحب! اگر آپ صبح کا مدرسہ نہ کریں گے تو آج ایک جماعت گئی ہے اور کل سے سارا مدرسہ غائب ہے۔ آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ اس بارے میں سارے کا سارا اسکول ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ کہنے لگے، ’’میں تمہاری اسپرٹ سے بہت خوش ہوا۔ اگر تمام دنیا میرے سر ہوتی تو صبح کا مدرسہ نہ کرتا۔ لیکن تمہاری جرأت دیکھنے کے بعد میں اپنا اردارہ بدل دیتا ہوں۔ جاو، سب سے کہہ دو کل سے صبح کا مدرسہ ہے، سرکار سے حکم بعد میں حاصل کر لیا جائے گا۔‘‘ میں سچ کہتا ہوں کہ انکی باتوں سے میرے آنسو نکل آئےاور میں نے دل میں کہا کہ’’فرحت۔ خدا کسی کو ہیڈ ماسٹر دے تو ایسا دے۔‘‘ میں شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا مگر منہ سے ایک حرف نہ نکلا۔ وہ بھی سمجھ گئے اور کہنے لگے، ’’جاؤ تمہاری حالت ایسی ہے کہ الفاظ میں کسی شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ کمرے سے باہر آنے کے بعد جس جوش و محبت سے لڑکوں نے گھیر کر مجھ سے ہاتھ ملائے ہیں، اس کی خوشی کو کچھ میرا دل ہی جانتا ہے۔ اب تک دنیا میں ہزاروں خوشیاں دیکھیں مگر وہ خوشی ایسی تھی کہ جس کا نہ جواب ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ اب دوسری لڑائی کا قصہ سنیئے۔ لڑکوں میں کھیل کود کا شوق پیدا کرنے کے لئے ہیڈ ماسٹر صاحب نے ٹورنمنٹ مقرر کی۔ جتنے مدرسے ہائی اسکول کے ما تحت تھے وہ سب جمع ہوتے۔ ہر طرح کے مقابلے ہوتے اور آخر میں جیتنے والوں کو مٹھائی بٹتی۔ میں اس زمانے میں انٹرنس میں تھا۔ خدا معلوم یہ خیال میرے دل میں کیوں پیدا ہوا کہ ایسے ٹورنمنٹ میں شریک ہونا اور بچوں کے ساتھ بھاگنا دوڑنا انٹرنس والوں کی توہین ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ ساری جماعت والے میرے ہم خیال ہو گئے۔ اور ہم سب نے شرکت سے انکار کر دیا۔ اس پر صاحب نے یہ سزا مقرر کی کہ جو لوگ ٹورنمنٹ میں شریک نہ ہوں وہ سو گز کی دوڑ دوڑیں۔ یہ ہم نے منظور کر لیا۔ ہر مہینہ سو گز بھاگتے اور چھٹی پا جاتے۔ ہماری دیکھا دیکھی نویں جماعت والوں نے بھی ٹورنمنٹ کی شرکت چھوڑ دی۔ صاحب کو یہ خیال ہوا کہ کہیں یہ مرض پھیل کر میری اسکیم کو بے کار نہ کر دے۔ اس لئے انہوں نے یہ کیا کہ میدان میں بنچ بچھوا دیےاور بنچوں پر پہلی دوسری جماعت کے لڑکوں کو بٹھا کر ہمیں حکم دیا کہ اب تم لوگ سو گز بھاگو اور ان بنچوں کے نیچے سے لوٹ کر نکلو۔ پہلے نویں جماعت والوں کو لیا گیا وہ بھاگے مگر جب بنچوں کے نیچے سے نکلنے لگے تو جو بچے اوپر بیٹھے تھے انہوں نے خوب لاتیں چلائیں۔ چار قطاروں میں یہ بینچ بچھائے گئے، بچاروں کو ہر جگہ یہی مصیبت پیش آئی۔ بہر حال یہ سب اسی طرح لوٹتے لٹاتے، لاتیں کھاتے رسی تک پہنچ ہی گئے۔ میں نے جو یہ حالت دیکھی تو اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ’’بھئی۔ تمہارا جو چاہے سو کرو۔ میں تو مر بھی جاؤں گا تو اس طرح نہ دوڑوں گا۔‘‘ سب نے کہا کہ ’’ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’تو چلو۔ میرے ساتھ آؤ۔‘‘ غرض ساری جماعت وہاں سے چل مدرسے کے دوسرے میدان میں جا بیٹھی۔ پہلے ہمارے پاس تھرڈ ماسٹر صاحب آئے اور کہا، ’’چلو صاحب بلاتے ہیں۔‘‘ ہم نے کہا، ’’جائیے ہم نہیں آتے، اگر سیدھی طرح سو گز دوڑائیں تو ہم آتے ہیں۔ یہ نہیں تو ہمیں دوڑنے سے انکار ہے۔‘‘ انہوں نے جا کر صاحب سے کہہ دیا۔ اس کے بعد سکنڈ ماسٹر صاحب آئے ان کو یہی جواب دے دیا۔ آخر میں سائنس ماسٹر صاحب آئے۔ ان کی ہم لوگ بڑی عزت کرتے تھے اور صاحب بھی ان کا بہت کہا مانتے تھے۔ انہوں نے آ کر ہمیں سمجھایا۔ اور کہا، ’’چلو جی۔ میں بنچوں کے نیچے لوٹنا معاف کرا دیتاہوں۔‘‘ ان کی بات پر یقین کر کے ہم سب کے سب پھر اس میدان میں آئے اور لائین باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ خدا اس سائنس ماسٹر کو سمجھے۔ اس نے ایک حرف ہمارے لئے نہیں کہا۔ صاحب کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو رہی تھیں۔ کہنے لگے، ’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ ارادہ یہ تھا کہ ہم سب خاموش رہیں اور سائنس ماسٹر صاحب ہماری وکالت کریں۔ مگرے میرے ادھر ادھر جو حضرات کھڑے تھے، انہوں نے اپنے شانوں سے مجھے کچھ اس طرح دھکیلا کہ میں کوئی دو قدم آگے بڑھ گیا۔ اب صاحب بجائے اس کے کہ ساری جماعت سے کوئی سوال کرتے، مجھ سے سوال کرنے لگے۔ میں نے بھی دیکھا کہ اب خاموش رہنا ٹھیک نہیں ہے، ان سے حجت کرنی شروع کر دی۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ اس طرح باتوں سے کام نہیں چلے گا تو حجت قطع کرنے کے لئے یہ کہا کہ میں صرف دو منٹ دیتا ہوں، جن کو اس طرح بھاگنا ہے وہ آگے نکل آئیں اور باقی یہاں سے چلے جائیں۔ وہ گھڑی نکال کر وقت دیکھنے لگے اور سوائے دو لڑکوں کے ہم سب وہاں سے چل دیے۔ ان دو لڑکوں میں ایک تو تھرڈ ماسٹر کے صاحب زادے تھے اور دوسرے ایک کشمیری پنڈت کے لڑکے جو حال ہی میں داخل ہوئے تھے۔ غرض یہ دونوں دوڑے اور دونوں نے خوب ہی لاتیں کھائیں۔ ٹورنمنٹ ختم ہوئی اور اب ہم کو فکر ہوا کہ دیکھئے اب صاحب کیا کرتے ہیں۔ دوسرے روز جو ہم سکنڈ ماسٹر صاحب کے کمرے میں گئے تو انہوں نے ذرا مسکرا کر کہا کہ، ’’تم لوگوں نے کل بہت زیادتی کی۔ صاحب تم سے خفا ہیں ان سے جاتے ہی معافی مانگ لو وہ ضرور معاف کر دیں گے۔‘‘ ہم نے کہا، ’’بہت اچھا۔‘‘ دوسرا ہی گھنٹہ صاحب کا تھا۔ جماعت جا کر بیٹھی۔ وہ منتظر تھے کہ پہلے معافی مانگی جائے، اس کے بعد پڑھانا شروع ہو۔ میں نے اس لڑکے کو اشارہ کیا جو ٹورنمنٹ میں ہم سے الگ ہو کر دوڑا تھا اور جو بچوں کی خوب لاتیں کھا چکا تھا اس نے کھڑے ہو کر کہا، ’’جناب والا۔ کل جو قصور ہم سے ہوا ہے وہ معاف فرمایا جائے۔ ہم اپنے کئے پر نادم ہیں۔‘‘ اب جو میں غور کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعی معافی کے اس طریقے سے صاحب کی بڑی توہین ہوئی۔ غضب خدا کا، قصور تو کرے کوئی اور معافی وہ مانگے جس نے قصور نہیں کیا۔ اس لڑکے کا معافی مانگنا تھا کہ صاحب بگڑ ہی تو گئے۔ کہنے لگے، ’’تم کیوں معافی مانگتا ہے۔ معافی وہ مانگے جس نے قصور کیا ہے۔‘‘ میں نے دل میں کہا کہ آج نہیں کل معافی مانگ لیں گے۔ جلدی ہی کیا ہے کوئی ہم یا صاحب بھاگے تھوڑی جاتے ہیں۔ جب صاحب نے دیکھا کہ کوئی معافی کے لئے نہیں اٹھتا تو انہوں نے کتاب بند کر میز کے خانے میں رکھی اور کچھ بڑ بڑاتے ہوئے چلے گئے اور جب تک ہماری جماعت وہاں رہی، کمرے کے اندر نہ آئے۔ ہمارا تیسرا گھنٹہ تھرڈ ماسٹر کے ہاں تھا۔ ابھی جا کر بیٹھے ہی تھے کہ مدرسے کی آڈر بک آئی۔ لکھا تھا کہ’’فرحت اللہ کو ہدایت کر دی جائے کہ وہ آج سے میرے کمرے میں نہ آئے۔‘‘ یہ حکم سن کر آگ ہی تو لگ گئی۔ فوراً جماعت سے اٹھا۔ ماسٹر صاحب نے کہا، ’’میاں۔ بیٹھو۔ صاحب کے ہاں نہ جایا کرو۔ وہاں کا سبق میں پڑھا دیا کروں گا۔ تھوڑے دنوں میں صاحب کا غصہ بھی دھیما پڑ جائے گا۔‘‘ میں نے کہا، ’’حضرت معاف کیجئے۔ میں اس مدرسے ہی میں نہیں پڑھتا۔‘‘ وہاں سے نکل کر دفتری کے پاس آیا۔ درخواست لکھی کہ میرا نام کاٹ دیا جائے اور صداقت نامہ حاضری دیا جائے۔ چپراسی کے ہاتھ یہ درخواست صاحب کو پہنچی۔ اس پر حکم ہوا کہ ’’طالب علم کو ایسی درخواست دینے کا حق نہیں ہے۔ اس کے ولی کی جانب سے درخواست پیش ہونی چاہئے۔‘‘ ہم اس وقت گھر آئے۔ واقعہ بیان کیا اور بڑی مشکل سے والد صاحب قبلہ کے دستخط اس درخواست پر لئے۔ بھاگے بھاگے پھر مدرسے گئے اور درخواست اندر پہنچوائی۔ حکم ہوا، ’’نا منظور۔‘‘ اور ساتھ ہی دوسرا حکم جاری کیا کہ فرحت اللہ کو بلا تعین مدت معطل (Suspand) کیا گیا۔ اب تماشا دیکھئے کہ انٹرنس کا امتحان سر پر آ گیا۔ نہ مدرسے میں پڑھنے کی اجازت دی جاتی ہےاور نہ نام کاٹا جاتا ہے اور یہ نا ممکن تھا کہ بغیر سارٹیفکٹ کے کوئی دوسرا مدرسہ مجھ کو لے لیتا۔ غرض کچھ عجیب آفت میں مبتلا ہو گیا۔ اور اس میرے یار نے اپنے حکم میں ذرا تبدیلی نہ کی۔ انیس روز تک یونہی ادھر میں لٹکائے رکھا۔ گھر میں سب پریشان تھےکہ لڑکے کا ایک سال ضائع ہوا۔ ہوتے ہوتے سب کی نظر میرے ایک چچا پر پڑی کہ ان کو صاحب کےپاس بھیجنا چاہئے۔ ہمارے یہ چچا بھی کچھ عجیب رنگ کے چچا تھے۔ نہایت اچھی انگریزی جانتے تھے اور شکل دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان کو انگریزی کا ایک حرف بھی آتا ہے۔ بہت علم فاضل تھے۔ لیکن صورت سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ بالکل گنوار کا لٹھ ہیں۔ اللہ کا دیا گھر میں سب کچھ موجود تھا لیکن کپڑوں کی حالت، ڈاڑھی موچھوں کی کیفیت، بالوں کی پریشانی اور ان کے رہنے سہنے کے طریقے سےیہ معلوم ہوتا تھا کہ مفلس قلاش شخص ہے۔ غرض ان کو بلا کر سارا معاملہ سمجھا یا گیا۔ ہم اور وہ دونوں مدرسے پہنچے۔ صاحب کو اطلاع کرائی گئی۔ انہوں نے صرف ان کو بلا لیا۔ اندر پہنچ کر معلوم ہوا کہ صاحب اور یہ دونوں ساتھ کے پڑھے ہوئے ہیں۔ پھر تو دونوں میں وہ گھٹی کہ دو گھنٹے گذر گئے۔ باتیں ہو رہی ہیں اور کسی طرح ختم ہی نہیں ہوتیں اور ہم ہیں کہ پریشان صورت باہر کھڑے چچا صاحب کا انتظار کر رہے ہیں۔ خدا خدا کر کے یہ باہر آئے۔ مجھے ساتھ لے کر گھر کی طرف چلے۔ میں نے پوچھا کہ، ’’بتائیے تو آخر کیا ہوا؟‘‘ انہوں نے کہا، ’’ گھر چل بتاؤں گا۔‘‘ غرض گھر پر آئے۔ سب گھر والوں نے ان کو گھیر لیا۔ پہلے تو مذاق کرتے رہے کہ صاحب نہیں مانتے۔ آخر میں کہا کہ ’’کل جاؤ اور صاحب سے معافی مانگ لو، تم کو مدرسے میں شریک کر لیا جائے گا۔ صاحب تم سے بہت خوش ہیں۔ اور نہیں چاہتے کہ تم ان کے مدرسے سے نکلو۔ ان کو تمہارے ٹورنمنٹ میں شریک ہونے کے متعلق بھی شکایت نہیں ہے۔ ان کو شکایت ہے تو یہ ہے کہ تم نے ایسے شخص سے معافی منگوائی جو بے قصور تھا۔ اگر تم اس وقت کھڑے ہو کر معافی مانگ لیتے تو معاملہ وہیں ختم ہو جاتا۔‘‘ خیر صاحب دوسرے روز ہم مدرسے پہنچے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سارا مدرسہ صاحب کے کمرے کے سامنے جمع ہے۔ ہمارے پہنچتے ہی سکنڈ ماسٹر صاحب نے ایک تحریری معافی نامہ ہم کو دیا اور کہا کہ ’’جب صاحب باہر نکلیں۔ تم اس کو پڑھ دو۔ میں کیا بتاؤں کہ اس وقت میری کیا حالت تھی۔ پسینہ یں شرابور تھا۔ غصے کے مارے آنکھیں جلنے لگی تھیں۔ جسم کانپ رہا تھا اور جی چاہتا تھا کہ پڑھنے لکھنے کو لعنت بھیج اور یہاں سے چل دے۔ اتنی دیر میں صاحب بھی کمرے سے باہر آئے میری حالت دیکھ کر سمجھ گئے کہ اس وقت اس سے کچھ پڑھوانا ٹھیک نہیں کہنے لگے، ’’تم معافی مانگتا ہے؟‘‘ میں نے نہایت دھیمی آواز میں کہا، ’’جی ہاں!‘‘ میرا یہ کہنا تھا کہ وہ آگے بڑھے اور میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لئے اور سب سے کہا، ’’اب جاؤ۔‘‘ جماعتیں رخصت ہوئیں اور وہ مجھے بڑی دیر تک سمجھاتے اور دلاسا دیتے رہے۔ ان کی محبت کی باتوں میں میرا دل بھر آیا۔ اور میں نے واقعی رو کر ان سے اپنی غلطی کی معافی مانگی، اور انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ اس طرح بنچوں پر چھوٹے بچوں کو بٹھا کر اونچی جماعت والوں کو لاتیں کھلوانا کسی طرح مناسب نہ تھا۔ ’’ تم نے جو کچھ کیاوہ اپنی (Self respect) خود داری کی وجہ سے کیا۔ اس لئے تم بالکل بے قصور ہو۔‘‘ بہر حال اس کے بعد صاحب نے مجھ پر وہ وہ عنایتیں کی ہیں کہ بیان نہیں ہو سکتیں۔ ان کا ذکر انشاء اللہ کبھی آئندہ کروں گا۔ فی الحال خدا حافظ۔
حاشیے
(1) اس کا پہلا حصہ مضامین فرحت کی جلد سوم میں طبع ہوا ہے۔
(2) چٹکا دینا اس کمترین کا ایجنا کردہ لفظ ہے۔ چٹکی لینا سے بنایا ہے۔ افسوس ہے مولوی سلیم مر گئے وہ اس لفظ کی تعریف کرتے تھے (مصنف)
(3) حیدر آباد میں اینڈ دی کو چٹا کہتے ہیں۔ اینڈ دی کپڑے کا وہ گول حلقہ ہوتا ہے جو پنہاریاں پانی کا گھڑا یا مٹکا اٹکانے کے لئے سر پر رکھتی ہیں۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |