ہے ہے کوئی دل دینے کے قابل نہیں ملتا
ہے ہے کوئی دل دینے کے قابل نہیں ملتا
ارمان تڑپتے ہیں کہ قاتل نہیں ملتا
ہو عقل تو ہو تل کی جگہ آنکھ میں لیلی
جھک قیس کی ہے صاحب محمل نہیں ملتا
گل کی ترے رخسار سے رنگت نہیں ملتی
نالہ سے مرے شور عنادل نہیں ملتا
اپنا بھی تو ملتا نہیں دل مجھ سے پھر اے یار
کس منہ سے کہوں تجھ سے ترا دل نہیں ملتا
بوسہ نہیں دیتے ہیں شب وصل میں بھی آپ
مزروعۂ امید کا حاصل نہیں ملتا
ملتا نہیں عارض سے ترے مہر درخشاں
پیشانی سے تیری مہ کامل نہیں ملتا
چمکے نہ وقارؔ آگے رخ یار کے خورشید
سمجھے رہے حق سے کبھی باطل نہیں ملتا
یا رب تمکیں دہر میں قاتل نہیں ملتا
پھیکے کسی دلبر سے مرا دل نہیں ملتا
وہ عشق کا دریا ہے کہ الیاس کو جس کا
کہنے کو پئے نام بھی ساحل نہیں ملتا
موجود ہے فلفل مجھے غم اس کا نہیں ہے
گر دیکھنے کو رخ کا ترے تل نہیں ملتا
مشق ستم و جور کا چورنگ ہوں اس سے
عاشق کوئی مجھ سا انہیں بے دل نہیں ملتا
اشعار وقارؔ ایسی غزل میں کہوں کیا خاک
مشکل تو یہ ہے قافیہ مشکل نہیں ملتا
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |