ہے نو جوانی میں ضعف پیری بدن میں رعشہ کمر میں خم ہے
ہے نو جوانی میں ضعف پیری بدن میں رعشہ کمر میں خم ہے
زمیں پہ سایہ ہے اپنے قد کا کہ جادۂ منزل عدم ہے
یہی ہے رسم جہان فانی اسی میں کٹتی ہے زندگانی
کبھی ہے سامان عیش و راحت کبھی ہجوم غم و الم ہے
بتاؤ کیوں چپ ہو منہ سے بولو گہر فشاں ہو دہن تو کھولو
عزیز رکھتے ہو جس کو دل سے اسی کے سر کی تمہیں قسم ہے
ہٹاؤ آئینہ کو خدارا لبوں پہ آیا ہے دم ہمارا
بناؤ تم دیکھتے ہو اپنا یہاں ہے دھڑکا کہ رات کم ہے
تمہارے کوچہ میں جب سے بیٹھے بھلائے دل سے سبھی طریقے
خدا ہی شاہد جو جانتے ہوں کہاں کلیسا کہاں حرم ہے
عبث ہے کوشش حصول زر میں خیال فاسد کو رکھ نہ سر میں
وہی ملے گا ازل سے جو کچھ ہر ایک کے نام پر رقم ہے
فرشتے جنت کو لے چلے تھے پہ تیرے کوچہ میں ہم جو پہنچے
مچل گئے ان سے کہہ کے چھوڑو ہمیں یہی گلشن ارم ہے
جدا ہو جب یار اپنا ساقی کہاں کی صحبت شراب کیسی
پلائیں گر خضر آب حیواں ہم اس کو سمجھیں یہی کہ سم ہے
جلائے یا ہم کو کوئی مارے بہشت دے یا سقر میں ڈالے
رہے گا اس بت کا نام لب پر ہمارے جب تک کہ دم میں دم ہے
حبیبؔ تا چند فکر دولت کبھی تو کر دل سے شکر نعمت
کریم کو ہے کرم کی عادت مگر یہ غفلت تری ستم ہے
This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication. |