ہے عید لاؤ مے لالہ فام اٹھ اٹھ کر
ہے عید لاؤ مے لالہ فام اٹھ اٹھ کر
گلے لگاتے ہیں شیشوں کو جام اٹھ اٹھ کر
ہوا چلی مری افتادگی کی اے ساقی
گریں گے نشہ میں سب خوش خرام اٹھ اٹھ کر
زمین و عرش و فلک پائمال ہوتے ہیں
نہ جاؤ صحن سے بالائے بام اٹھ اٹھ کر
کوئی بشر نہ ہو مغرور جسم خاکی پر
کہ بیٹھتے ہیں بہت قصر خام اٹھ اٹھ کر
دم سحر نظر آیا ہے کس کا منہ یا رب
صنم جو کرتے ہیں مجھ کو سلام اٹھ اٹھ کر
ذرا اٹھائیے تابوت اپنے عاشق کا
خدا کی راہ کا کرتے ہیں کام اٹھ اٹھ کر
قیامت آئی ہے ہلچل ہے آسمانوں پر
نہ پھریے بہر خدا بام بام اٹھ اٹھ کر
پڑے ہیں پاؤں کی صورت زبان میں گھٹے
یہ قاصدوں کو دئے ہیں پیام اٹھ اٹھ کر
بنے گی شعلۂ جوالہ گردش قسمت
تمہارے گرد پھرے گا غلام اٹھ اٹھ کر
بڑھے گی بات نہ بیٹھیں گے چپکے ہم اے بت
رقیب سے جو کرو گے کلام اٹھ اٹھ کر
رہے گی عاشقوں کے دست و پا میں جب تک حس
تمہاری لیں گے بلائیں مدام اٹھ اٹھ کر
خدا بٹھائے اگر کربلا میں مجھ کو منیرؔ
پھروں میں گرد مزار امام اٹھ اٹھ کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |