Jump to content

ہے ترا گال مال بوسے کا

From Wikisource
ہے ترا گال مال بوسے کا
by انشاء اللہ خان انشا
293832ہے ترا گال مال بوسے کاانشاء اللہ خان انشا

ہے ترا گال مال بوسے کا
کیوں نہ کیجے سوال بوسے کا

منہ لگاتے ہی ہونٹھ پر تیرے
پڑ گیا نقش لال بوسے کا

زلف کہتی ہے اس کے مکھڑے پر
ہم نے مارا ہے جال بوسے کا

صبح رخسار اس کے نیلے تھے
شب جو گزرا خیال بوسے کا

انکھڑیاں سرخ ہو گئیں چٹ سے
دیکھ لیجے کمال بوسے کا

جان نکلے ہے اور میاں دے ڈال
آج وعدہ نہ ٹال بوسے کا

گالیاں آپ شوق سے دیجے
رفع کیجے ملال بوسے کا

ہے یہ تازہ شگوفہ اور سنو
پھول لایا نہال بوسے کا

عکس سے آئنے میں کہتا ہے
کھینچ کر انفعال بوسے کا

برگ گل سے جو چیز نازک ہے
واں کہاں احتمال بوسے کا

دیکھ انشاؔ نے کیا کیا ہے قہر
متحمل یہ گال بوسے کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.