ہے بے خود وصل میں دل ہجر میں مضطر سوا ہوگا
ہے بے خود وصل میں دل ہجر میں مضطر سوا ہوگا
خوشی جس گھر کی ایسی ہے وہاں کا رنج کیا ہوگا
ابھی تو یار سے کہنے کی دل میں باتیں ہیں لاکھوں
نہ کچھ یاد آئے گا اس وقت جس دم سامنا ہوگا
مرے مدفن کی مٹی کا وہ کھچوائیں گے عطر اکثر
اگر بوئے وفا کا ان کے دل میں کچھ مزا ہوگا
وہ گیسو بڑھتے جاتے ہیں بلائیں ہوتی ہیں نازل
قدم تک آ گئے جب حشر عالم میں بپا ہوگا
غضب کرتے ہو میرے دل کو ابرو سے چھڑاتے ہو
بھلا سمجھو تو کیوں کر گوشت ناخن سے جدا ہوگا
عدم میں میرا کیا کیا دم رکے گا ایک مدت تک
نئی بستی نئی پوشاک ہوگی گھر نیا ہوگا
اتارا خون کے دریا سے ہوگا سرفروشوں کا
بنے گی تیغ کشتی اور قاتل ناخدا ہوگا
بیاں تھا روز اول یہ مرے دل کی اداسی کا
بڑی اس گھر کی آبادی یہ ہے ماتم سرا ہوگا
خبر لے باغباں ہے کس غضب کا حبس گلشن میں
ہوا ہے بند اسیران قفس کا دم رکا ہوگا
مرے سینے سے دل کے ٹوٹنے کی کیوں صدا آئی
مگر یاں ہاتھ سے ساقی کے شیشہ گر پڑا ہوگا
ستم گر آئے گا اکثر خبر لینے کو زنداں میں
ہمیں وہ بیڑیاں پہنا کے پابند وفا ہوگا
رقیبوں کی امیدوں کو جگہ دیتے ہیں دل میں ہم
کہ ان میں سے کوئی آخر ہمارا مدعا ہوگا
نہیں ہے جس میں تیرا عشق وہ دل ہے تباہی میں
وہ کشتی ڈوب جائے گی نہ جس میں ناخدا ہوگا
رشیدؔ الفت سے جب واقف نہ تھے اکثر یہ کہتے تھے
نہ دل سے ہم جدا ہوں گے نہ ہم سے دل جدا ہوگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |