Jump to content

ہے اپنے قتل کی دل مضطر کو اطلاع

From Wikisource
ہے اپنے قتل کی دل مضطر کو اطلاع (1914)
by پروین ام مشتاق
308320ہے اپنے قتل کی دل مضطر کو اطلاع1914پروین ام مشتاق

ہے اپنے قتل کی دل مضطر کو اطلاع
گردن کو اطلاع نہ خنجر کو اطلاع

بے پردہ آج نکلے گا پردہ نشیں مرا
کر دے یہ کوئی مہر منور کو اطلاع

چھپ چھپ کے اب جو نکلو تو معلوم ہو مزہ
کر دی ہے میں نے آپ کے گھر بھر کو اطلاع

بلبل نہ باز آئیو فریاد و آہ سے
کب تک نہ ہوگی قلب گل تر کو اطلاع

کس طرح کر دیا دل نازک کو چور چور
اس واقعہ کی خاک ہے پتھر کو اطلاع

کیا کام انقلاب کا کچھ بھی نہیں یہاں
دور فلک کے دورۂ ساغر کو اطلاع

ہٹ جائے اک طرف بت کافر کی راہ سے
دے کوئی جلد دوڑ کے محشر کو اطلاع

چلنے بھی وہ نہ پائے تھے اپنے مقام سے
پہلے سے ہو گئی دل مضطر کو اطلاع

میں سخت جاں ہوں قصد کرے دیکھ بھال کر
پہلے سے ہو گئی ہے یہ خنجر کو اطلاع

پرویںؔ ریاض خلد میں کس کس کو جام دیں
پہلے سے ہے یہ ساقیٔ کوثر کو اطلاع


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DB%81%DB%92_%D8%A7%D9%BE%D9%86%DB%92_%D9%82%D8%AA%D9%84_%DA%A9%DB%8C_%D8%AF%D9%84_%D9%85%D8%B6%D8%B7%D8%B1_%DA%A9%D9%88_%D8%A7%D8%B7%D9%84%D8%A7%D8%B9