ہے اندھیرا تو سمجھتا ہوں شب گیسو ہے
Appearance
ہے اندھیرا تو سمجھتا ہوں شب گیسو ہے
بند آنکھیں ہیں کہ اے یار نظر میں تو ہے
دم بہ دم کہتے ہو کیوں فکر میں ناحق تو ہے
غم کو کیا کام مرا سر ہے مرا زانو ہے
اس لیے دل کے طلب کرنے پہ میں روتا ہوں
تر نہ ہو آپ کا دامن کہ یہ اک آنسو ہے
آج پھر کل کی طرح ہجر کی رات آتی ہے
دیکھیے کیا ہو وہی دل ہے وہی پہلو ہے
ایک مدت کا ہے قصہ کسی جانب دل تھا
یہ نہیں یاد یہ پہلو ہے کہ وہ پہلو ہے
یاد ایام گذشتہ میں نہ تڑپوں کیوں کر
کہ ابھی تک مرے بستر میں تمہاری لو ہے
مجھ کو مانع ہے ادب ذبح میں کیوں کر تڑپوں
او ستم گر مرے سینے پہ ترا زانو ہے
ہے عیاں دل کے دھڑکنے سے کسی کی الفت
آج کل آپ کے پہلو میں مرا پہلو ہے
ہو گیا ہے جو مرے دل کا ستانا منظور
آج کل آپ کی ہر بات میں اک پہلو ہے
ترک الفت تو کچھ آساں نہیں مشکل ہے رشیدؔ
روکو آہوں کو ذرا ان پہ اگر قابو ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |