Jump to content

ہے آفتاب اور مرے دل کا داغ ایک

From Wikisource
ہے آفتاب اور مرے دل کا داغ ایک
by جوشش عظیم آبادی
303092ہے آفتاب اور مرے دل کا داغ ایکجوشش عظیم آبادی

ہے آفتاب اور مرے دل کا داغ ایک
دیکھا تو بزم عشق میں ہے یہ چراغ ایک

وحدت ہی سے ظہور ہے کثرت کا دیکھ لے
ہیں پھول سو طرح کے ولیکن ہے باغ ایک

جس دن سے وہ خیال میں تیری کمر کے ہے
عنقا کا اور دل کا مرے ہے سراغ ایک

انصاف سے بعید ہے ساقیٔ روزگار
اوروں کو جام سیکڑوں مجھ کو ایاغ ایک

لائیں کہاں سے تیری سی فکر بلند ہم
ؔجوشش نہیں ہر ایک کا دل اور دماغ ایک


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.