Jump to content

ہو رہا ہے ٹکڑے ٹکڑے دل میرے غم خوار کا

From Wikisource
ہو رہا ہے ٹکڑے ٹکڑے دل میرے غم خوار کا
by انور دہلوی
303635ہو رہا ہے ٹکڑے ٹکڑے دل میرے غم خوار کاانور دہلوی

ہو رہا ہے ٹکڑے ٹکڑے دل میرے غم خوار کا
ہے مرے زخم جگر میں کاٹ تیغ یار کا

شور ہے غل ہے جہاں میں مردن دشوار کا
ایک چلتا وار ہے ہیں تیغ نگاہ یار کا

نغمہ دل کش ہے دشمن عندلیب زار کا
ہے قفس میں بند ہونا کھولنا منقار کا

مست کچھ ایسا ہوں چشم نیم مست یار کا
ظرف خالی جانتا ہوں ساغر سرشار کا

کیا کہوں کیا حال ہے مجھ ناتوان و زار کا
ہوں نگاہ واپسیں اپنی دل بیمار کا

آسماں پھرتا ہے حسب مدعائے مدعی
راہ پر لانا غضب ہے ایسے کج رفتار کا

بل بے بد خوئی مزاج یار میں سو بل پڑے
ایک بل نکلا جو تار‌ گیسوئے خم دار کا

دست ساقی پر لگائے آنکھ رہتا ہے مدام
جام مے ہے دیدۂ حسرت کسی مے خوار کا

کس قدر بشاش ہے اسرار سے خالی نہیں
رنگ میرا اڑ گیا منہ دیکھ کر سوفار کا

میں گرفتار وفا ہوں چھٹ کے جاؤں گا کہاں
بال باندھا چور ہوں ہر تار زلف یار کا

کوئی اک گردش تو ہو ایسی بھی ہاں اے چشم یار
شیخ پوچھے مجھ سے رستہ خانہ خمار کا

واہ رے قسمت کہ وہ میرے مقدر میں پڑا
آہ نے جو بل نکالا چرخ کج‌ رفتار کا

لے چلو واعظ کو ہاتھوں ہاتھ اٹھائے مے کشو
پاسباں چل کر بنا دو خانہ خمار کا

جان سننے والوں کی واعظ لبوں پر آ گئی
واہ کیا کہنا ہے حضرت آپ کی گفتار کا

ہے جو افتادوں سے کچھ نفرت تو نفرت ہی سہی
کیوں زمیں پر گر پڑا سایہ تیری دیوار کا

شکل مرہم دیکھ کر ڈرتا ہے میرا زخم دل
کھول کر آنکھ اپنی دیکھا ہے جو منہ سوفار کا

نالہ میرے لب پہ آتا ہے جو سو سو ناز سے
کوئی پرتو لے اڑا شاید تری رفتار کا

یہ تو ظاہر ہے کہ وصل ان کا کہاں اور ہم کہاں
لیکن اس پیغام میں کچھ لطف ہے تکرار کا

دل کو لے جا مجھ سے یا تو آپ لے یا بانٹ دے
پر یہ حصہ ہے تیری گیسو کے اک اک تار کا

الامان اس برش تیغ نظر سے الامان
مانتی ہے برق بھی لوہا تیری تلوار کا

ہاتھ سنبھلا رکھیو اے مشاطۂ جادو طراز
اک جہان دل ہے بستہ طرۂ طرار کا

ہوں تو دیوانہ ولے ہشیاریٔ مطلب تو دیکھ
سر بھی پھوڑا ڈھونڈ کر پتھر تری دیوار کا

کچھ ادھر سے عرض مطلب اور ادھر سے کچھ نہیں
اک جداگانہ مزا ہے وصل میں تکرار کا

کتنا گستاخی سے کھینچا ہے تجھے آغوش میں
میں گلے کا ہار ہوں تیرے گلے کے ہار کا

کیوں نہیں گرتا مرے آفت زدوں پر ہائے ہائے
آسماں بھی ہے مگر سایہ تری دیوار کا

چھو گئی کافر ہوا کس کی نگاہ گرم سے
پھول کملایا ہوا ہے کچھ گل رخسار کا

ملتی ہے آخیر کو کچھ کیفیت سوز و گداز
صاعقہ حصہ ہے پہلا طالب دیدار کا

ایک جلوہ پر چمک اٹھتی ہے سب اقلیم عشق
کون عالم ہے ہمارے دیدۂ بے دار کا

آسماں رکھتا ہے آنکھیں مہر و مہ سے اس سے پوچھ
کون عالم ہے ہمارے دیدۂ بے دار کا

حسن میں خود رفتگی ہے تو نہیں مانع حجاب
بوئے گل کو پھاندنا کیا باغ کی دیوار کا

وہ ہی اپنی چال ہے کوئی مرے کوئی جئے
لے اڑے سارا چلن تم چرخ کج رفتار کا

ناخن شمشیر قاتل کو دعا دیتے ہیں ہم
عقدہ کھولا خوب انورؔ مردن دشوار کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.