ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے
by قابل اجمیری
319225ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہےقابل اجمیری

ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے
وحشت بڑے دلچسپ دوراہے پہ کھڑی ہے

دل رسم و رہ شوق سے مانوس تو ہو لے
تکمیل تمنا کے لیے عمر پڑی ہے

چاہا بھی اگر ہم نے تری بزم سے اٹھنا
محسوس ہوا پاؤں میں زنجیر پڑی ہے

آوارہ و رسوا ہی سہی ہم منزل شب میں
اک صبح بہاراں سے مگر آنکھ لڑی ہے

کیا نقش ابھی دیکھیے ہوتے ہیں نمایاں
حالات کے چہرے سے ذرا گرد جھڑی ہے

کچھ دیر کسی زلف کے سائے میں ٹھہر جائیں
قابلؔ غم دوراں کی ابھی دھوپ کڑی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse